A city gripped by fear (خوف کی فضا میں سانس لیتا شہر)
یہ بہت خوب صورت شہر تھا، سن 1900 میں اس کی فضاؤں میں Jazz music گونجتا تھا، لیکن اب اس شہر میں موت کا راج تھا، ویسے تو انسان اپنے گھر میں بے حد محفوظ ہوتا ہے لیکن New Orleans میں لوگ سب سے زیادہ خطرہ اپنے گھر میں ہی محسوس کرتے تھے، دروازے پہ ہونے والا ہر کھٹکا، ہر آہٹ ان کا خون خشک کر دیتی۔ ہر معمولی آواز پر بھی انہیں شبہ ہوتا کہ وہ آگیا ہے، ان کی جان کا دشمن، وہ بھیانک کردار جس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا تھا، بس وہ ایک نام جانتے تھےThe Axeman of New Orleans، کلہاڑے والا آدمی۔ جو پلک جھپکتے میں کسی کو بھی موت کی وادی میں بھیج دیتا تھا، جس نے true crime اور unsolved axe murders کا وہ سلسلہ شروع کیا تھا جس نے سب کو چکرا کر رکھ دیا۔
The Killing Spree Begins
ابتدا مئی سے ہوئی۔
23 مئی 1918 کی رات ایک اپارٹمنٹ میں دو میاں بیوی گہری نیند سوئے ہوئے تھے۔ یہ ایک اٹالین جوڑا تھا، مرد کا نام Joseph Maggio تھا اور وہ ایک دکاندار تھا، اس کے ساتھ Catherine اس کی بیوی تھی، گہرے سپنوں میں کھوئے اس جوڑے کو پتہ ہی نہیں چل سکا اور کوئی ان کے گھر کا بیرونی دروازہ توڑ کر اندر آ گیا، سوئے ہوئے میاں بیوی پر پے در پے ریزر کے وار کیے اور انہیں ختم کر دیا۔ Catherine اسی وقت جان کی بازی ہار گئی البتہ جوزف کچھ دیر تک زندہ رہا، اس کے بھائیوں جیک اور اینڈریو کو پتہ چلا تب تک وہ بھی ختم ہو گیا۔ لیکن حیرت کی بات تو یہ تھی گھر سے کیش اور دوسرا جو بھی قیمتی سامان تھا،اس میں سے کچھ بھی غائب نہیں تھا، پولیس نے تفتیش کی تو پتہ چلا کہ وہ ریزر جس سے ان پر وار کیے گئے تھے اینڈریو کا تھا، جو ایک حجام تھا۔ پولیس کو اینڈریو پر شک ہوا جس کا اپارٹمنٹ بھی قریب ہی تھا، لیکن اس کے پاس اپنے بھائی اور بھابھی کی جان لینے کا کوئی موٹو نہیں تھا، اس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا اس لیے اسے چھوڑ دیا گیا۔ پولیس کو خون آلود کپڑے بھی اپارٹمنٹ سے ملے اور ریزر بھی ایک پڑوسی کے لان میں پڑا مل گیا۔ جس سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ قاتل نے اپنا کام ختم کرنے کے بعد خون آلود کپڑے تبدیل کر کے صاف لباس پہنا اور ان کپڑوں کو وہیں چھوڑ کر کسی کے نظر میں آئے بغیر چلا گیا، اینڈریو کا کہنا تھا کہ اس نے چند دن سے ایک اجنبی کو اپارٹمنٹ کے آس پاس منڈلاتے دیکھا تھا، اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود پولیس کو قاتل کا کوئی سراغ نہ ملا۔
لیکن Axeman یہیں پر نہیں رکا۔۔
اس کے وکٹمز میں ایک اور نام بھی شامل ہونے والا تھا۔
اس کا اگلا شکار Louis Besumer اور اس کی بیوی بنے، 27 جون 1918 کو وہ اپنے گھر میں جو ان کی گروسری شاپ کے اوپر تھا، سو رہے تھے جب ایک کلہاڑا تھامے ہوئے شخص نے ان پر حملہ کر دیا، صبح گروسری کے لیے آنے والے ایک ویگن ڈرائیور نے انہیں دیکھا تو فورا پولیس کو اطلاع کی۔ وہ دونوں بچ گئے مگر اس بار بھی حملہ کرنے والے کا پتہ نہ چل پایا۔ جس کلہاڑے سے حملہ کیا گیا تھا وہ Besumer کا اپنا تھا اور بعد میں گھر میں ہی ایک باتھ روم سے مل گیا۔
اس کیس کے بعد سے Axeman لوگوں کی مکمل توجہ حاصل کر چکا تھا، New Orleans crime history میں ایسے بے رحمانہ حملے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے، یہاں کے لوگ بے حد خوف زدہ ہو چکے تھے، اکثر لوگوں نے اپنے گھر کے پچھلے حصوں میں کلہاڑے نظر آنے کی شکایت کی، وہ اپنے گھروں میں بھی خود کو محفوظ نہیں محسوس کرتے تھے، پولیس بہت چوکنی ہو چکی تھی اور اس پر اسرار ایکس مین کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن عیار serial killer نے ان کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل جاری رکھا، اور ٹھیک دو مہینے بعد، 5 اگست 1918 کو ایک اور حملہ کیا۔ اس بار اس کا شکار Anna Schneider تھی اور چند دن بعد یعنی 8 اگست کو Joseph Romano بنا۔ Anna بچ گئی لیکن جوزف نہیں بچ پایا۔ اس بار بھی دونوں حملے کلہاڑے سے ہوئے جو بعد میں وہیں پڑے پائے گئے، گھر سے کوئی چیز غائب نہ ہوئی اور حملہ کرنے والا پچھلے دروازے کا پینل توڑ کر اندر آیا۔ پولیس اس بار بھی ہاتھ ہی ملتی رہ گئی۔ اس کے بعد مختلف وقفوں سے یہ طویل سلسلہ جاری رہا، serial killer victims میں اضافہ ہونے لگا، unsolved murder cases کی تعداد بڑھنے لگی، بارہ سے زیادہ حملے ہوئے جن میں طریقہء واردات ایک جیسا ہی تھا۔ لیکن پھر 13 مارچ کا دن آیا، صبح سویرے نیو اورلینز کے جس شخص نے بھی اس دن کا نیوز پیپر پڑھا، وہ بوکھلا کر رہ گیا کیونکہ اس دن اس نیوز پیپر میں ایک خط شائع ہوا تھا، Axeman کا خط۔۔۔
The Infamous Letter from Hell
13 مارچ 1919 کو ہر اخبار نے اپنے پہلے صفحے پر ایک پر اسرار اور دل دہلا دینے والا خط پبلش کیا۔ ” وہ مجھے نہیں پکڑ پائے، نہ ہی کبھی پکڑ سکتے ہیں، وہ مجھے نہیں دیکھ پائیں گے کیونکہ میں نظر نہیں آتا، میں انسان نہیں، ایک Demon ہوں جو جہنم سے آیا ہے“۔
اس خط کے چھپتے ہی ایک کھلبلی سی مچ گئی، Axeman کے letter میں مزید لکھا تھا، ” میں جب چاہوں گا پھر سے تمہاری جانیں لینے آؤں گا، تمہاری پولیس کبھی بھی مجھ تک نہیں پہنچ پائے گی کیونکہ میں خون کے چھینٹوں اور کلہاڑے کے علاوہ کوئی نشان نہیں چھوڑتا۔“ اور یہ بات سچ تھی، پولیس کو ابھی تک اس کے خلاف کوئی نشان، کوئی ثبوت نہیں ملا تھا۔ لیکن سب سے حیران کن اس کی میوزک کی فرمائش تھی، لیٹر میں لکھا تھا، ”میں اب تمہاری زمین کو چھوڑ رہا ہوں اور میں 19 مارچ کی رات 12:15 منٹ پر New Orleans سے گزروں گا، لیکن میں Jazz music کا دیوانہ ہوں اور میں سبھی شیطانوں کی قسم کھاتا ہوں کہ اس وقت جس کسی کے گھر میں Jazz music بجے گا، اس کی جان بخش دوں گا، اور جس نے ایسا نہ کیا وہ چاہے کہیں بھی ہو، میرے کلہاڑے کو اپنے سامنے پائے گا“۔ اس خط کا بڑا عجیب رد عمل ہوا، 19 مارچ کی رات لوگ پارٹیاں کر رہے تھے، ہر گھر میں فل والیوم میں جیز میوزک بج رہا تھا!
وہ رات تو خیریت سے گزر گئی، لیکن Jazz killer کی Mystery کبھی حل نہیں ہوپائی۔ کئی انویسٹیگیشنز ہوئیں، پولیس نے بھی بے انتہا کوششیں کیں اور بہت سے افراد کو مشکوک سمجھ کر گرفتار بھی کیا گیا، مگر اصل ایکس مین کون تھا اور وہ یہ سب کیوں کرتا تھا؟ اس راز کی تہہ تک آج بھی کوئی نہیں پہنچ پایا۔ یہ مسٹری آج بھی ایک مسٹری ہی بنی ہوئی ہے کہ ایکس مین کون تھا؟ ایک پر اسرار سیریل کلر تھا یا اپنے دعوے کے مطابق سچ مچ میں کوئی بھٹکی ہوئی روح، Demon یا Evil spirit تھا؟ اور کیا وہ خط سچ مچ ایکس مین نے ہی لکھا تھا؟
آپ اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ کمنٹ باکس میں ضرور بتائیں۔
0 Comments