1st episode اوراقِ_محبت

 بسم اللّه الرحمٰن الرحيم

Urdu romantic novel

#اوراقِ_محبت


از:سحر_حسن


قسط نمبر 1


وہ ایک خالی اندھیر کمرا تھا ۔


روشنی کا واحد ذریعہ وہ روشندان تھا،جو چھت کے ایک کونے میں نظر آرہا تھا،جہاں سے دن کے وقت شاید کوئی سورج کی کرن آجاتی ہو،مگر اس وقت وہاں گھپ اندھیرا رات کی نشانی تھا۔


اس اندھیرے میں پہلے ہلکی ہلکی مردانہ سسکیوں کی آواز سنائی دی،پھر ایک سفید رنگ کی روشنی اس کمرے میں پھیلنے لگی۔۔


سفید روشنی نے اندھیرے کو ختم کردیا تھا،اب وہاں کا منظر واضح تھا۔۔ایک پرانے طرز کا پلنگ،ایک میز اور کرسی کے علاوہ وہاں لکڑی کی تین چار الماریاں تھیں،جن میں بہت سی کتابیں بھری ہوئی تھیں۔فرنیچر کی لکڑی سالخوردہ اور جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی نظر آتی تھی۔۔۔فرش پر کبھی قالین بچھا ہوا ہوگا، اب وہاں دھول مٹی کی دبیز تہہ نظر آرہی تھی۔۔۔ایسا لگتا تھا گویا سالوں تک اس کمرے میں کسی نے جھانک کر نہیں دیکھا تھا۔۔۔


سسکیوں کی آواز مدھم ہوتے ہوتے ختم ہوگئی تھی،مگر روشنی جوں کی توں پھیلی ہوئی تھی۔


سارے کمرے میں اگر کوئی چیز گرد سے پاک تھی تو وہ ایک ڈائری تھی جو ٹیبل پر پڑی تھی۔


اس وقت وہاں ہوا کا نام و نشان بھی نہ تھا،مگر ڈائری کے اوراق پھڑپھڑارہے تھے۔


کھلی ڈائری کا پہلا ورق پلٹا،کچھ لکھا تھا وہاں۔۔


"اوراقِ محبت"۔


وہ کسی کی محبت کی کہانی تھی۔۔


کسی کے عشق کی داستان تھی۔۔۔


کسی کے یادوں کے اوراق تھے جنہیں اس نے اوراقِ محبت کے نام سے اس ڈائری کے اندر محفوظ کردیا تھا۔


وہاں کوئی ذی نفس نہیں تھا،کوئی پڑھنے والا انسان نہیں تھا۔۔۔مگر پھر بھی ورق پلٹ رہے تھے،وہ داستان پڑھی جارہی تھی۔۔۔۔


بس پڑھنے والا آنکھوں سے اوجھل تھا۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سڑک کا وہ حصہ خاصی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔


گاڑیاں چلانے والوں کے لیے وہ راستہ کسی پل صراط سے کم نہیں تھا۔ جگہ جگہ بڑے بڑے گڑھے کسی عفریت کی طرح منہ پھاڑے نظر آتے تھے۔ ان سے بچ کر نکلنا ہی ڈرائیور کی مہارت کا اصل ثبوت تھا۔


مخدوش راستے کی وجہ سے یہاں ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی،کسی کسی وقت اکا دکا گاڑی یا بائیک گزرتی نظر آتی تھی۔


اور یہ راستہ اختیار کرنے والے اپنی جان کی خیر مناتے اور گورنمنٹ کو کوستے ہوئے گزرا کرتے تھے۔


اور اس وقت بھی سنسان رستے پر چیونٹی کی رفتار سے رینگنے والی گاڑی میں بیٹھا چاچا رحیم بھی یہی کررہا تھا، پچھلی سیٹ پر بیٹھی امایہ سخت بیزاری سے کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔


"چاچا وہ دیکھیں،وہ جو آدمی سائیکل پر آگے آگے جارہا ہے وہ ہماری گاڑی سے پیچھے تھا"۔ امایہ کی آواز پہ چاچا رحیم کا دل چاہا اپنا سر اسٹیئرنگ پہ دے مارے،"بٹیا رانی ہم کیا کریں،راستہ بہت خراب ہے"۔وہ ایک گڑھے سے گاڑی بچاتے ہوئے بولا۔


"چاچا اس رفتار سے تو ساری زندگی ہم یہیں رینگتے رہیں گے،مجھے بہت بھوک لگی ہے اور نیند بھی آرہی ہے"۔۔ امایہ نے منہ پہ ہاتھ رکھ کر جمائی روکی۔


"بس بٹیا رانی،اب تھوڑا ہی راستہ ہے،تھوڑی دیر میں پہنچ جائیں گے"۔رحیم چاچا نے اسے تسلی دی۔


وہ بیزاری سے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھ گئی۔


غنودگی نے اسے اپنی آغوش میں لیا ہی تھا کہ اچانک ہی گاڑی کو جھٹکا لگا اور ساتھ ہی دھماکا سا سنائی دیا۔وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔


"کیا ہوا چاچا"۔


"لگتا ہے ٹائر پھٹ گیا "اس نے نیچے اتر کر جائزہ لیا۔سڑک کے اکھڑے ہوئے پتھروں کی وجہ سے اگلا ٹائر پنکچر ہوگیا تھا۔


"یاخدا"وہ کراہنے والے انداز میں بولی"کس ویرانے میں پھنس گئے ہیں ہم".


وہ بھی گاڑی سے نیچے اتر آئی۔وہ واقعی ویرانہ ہی تھا۔ ارد گرد سناٹا چھایا ہوا تھا۔ سڑک کے ایک طرف سرسبز لہلہاتے کھیتوں کا سلسلہ تھا تو دوسری طرف بنجر میدان، جس میں جابجا جھاڑیاں اور خودرو پودے جھوم رہے تھے۔


امایہ اپنے خاندان میں بہادر ترین لڑکی سمجھی جاتی تھی مگر اس وقت اس نے عجیب سا خوف محسوس کیا۔


چاچا رحیم نے ٹائر تبدیل کرلیا تھا مگر جب اس نے گاڑی اسٹارٹ کی تو انجن گھرگھرا کر رہ گیا، گاڑی نے اسٹارٹ ہونے سے انکار کردیا تھا۔ اس نے دوتین بار کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔ انجن میں کوئی تکنیکی خرابی تھی۔


"اب کیا پیدل مارچ کریں گے!"۔اسے خوامخواہ ہی غصہ آنے لگا۔


چاچا رحیم بے چارہ شرمندہ سا بونٹ اٹھائے کھڑا تھا،نہ جانے کہاں فالٹ ہوا تھا کہ کوئی سرا مل کے ہی نہیں دے رہا تھا۔


اچانک ہی ڈھم ڈھم کی آواز پہ وہ دونوں چونکے، سامنے ایک بیل گاڑی چلی آرہی تھی جس پہ گھاس کے گٹھے لدے ہوئے تھے۔


چاچا رحیم کا چہرہ کھل اٹھا"بٹیا رانی،گاڑی تو ٹھیک نہیں ہورہی،بیل گاڑی پہ سواری کروگی؟ ان سے کہوں گا تو حویلی تک پہنچا دیں گے"۔وہ سے مخاطب ہوا۔


"بیل گاڑی؟"۔یہ سواری نامانوس نہیں تھی مگر اس پر پہلے کبھی سواری بھی نہیں کی تھی، بہرحال،اتنی بری بھی نہیں تھی۔


چاچا رحیم اب بیل گاڑی روک رہا تھا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کار رکی تو وہ تینوں نیچے اتر آئے۔


"خاصی خوبصورت جگہ ہے "منعم نے ارد گرد دیکھتے ہوئے کہا۔


"بالکل "حیدر بھی گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔


ان کی باتوں سے بے نیاز منصور بونٹ سے کمر ٹکائے کھڑا تھا۔


وہ ایک مشہور نیوز پیپر کی طرف سے آئے تھے۔حیدر کیمرہ مین کا فریضہ انجام دیتا تھا اور منصور رپورٹر اور فیچر رائٹر تھا۔


منعم ان کے ساتھ گھومنے پھرنے آیا تھا،بقول حیدر کے منعم کے پاس اور کوئی کام نہیں تھا سوائے آوارہ گردی کے،سیر و سیاحت اس کا شوق ہی نہیں عشق تھا۔ چنانچہ اخبار کی طرف سے انہیں جب بھی کہیں بھیجا جاتا تو وہ ان کے ساتھ لازمی آتا تھا۔


حیدر منصور کی وجہ سے اس نیوز پیپر میں آیا تھا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ منصور اسے زبردستی کھینچ لایا تھا۔ حیدر بہت اچھا فوٹوگرافر تھا۔ یہاں تنخواہ تو اچھی تھی مگر کام بے حد سخت تھا۔ کئی بار ان کی جان خطرے میں پڑی تھی۔ دوبار وہ سرکاری مہمان بھی بنے تھے۔ مگر چند گھنٹوں بعد ہی انہیں رہا کردیا گیا۔


دونوں بار اخبار کا مالک دوڑا دوڑا آیا اور انہیں چھڑا کر لے گیا۔ وہ منصور کو کھونے کا رسک نہیں لے سکتا تھا۔ وہ اس کی ٹیم کا بہترین رکن تھا۔ اخبار کے ہفت روزے کا بہت سا کام سنبھال رکھا تھا اس نے اور اس کے لکھے گئے فیچرز بہت پسند کیے جاتے تھے۔ اسے ایک نمایاں حیثیت حاصل تھی۔ اور اب تو اخبار سے منسلک نیوز چینل پر بھی اسے رپورٹنگ کرنی پڑتی تھی کہ اس کا انداز بے شمار لوگوں کا فیورٹ تھا اور اس کی رپورٹ چینل کی ریٹنگ بڑھانے میں بہت اہم کردار کرتی تھی۔


اس بار پھر انہیں ایک نئے مشن پہ بھیجا گیا تھا۔اور حسب معمول وہ تینوں ساتھ تھے۔ تینوں میں دانت کاٹے کی دوستی تھی۔


"اداس روح،تو کب اپنی چپ کا روزہ توڑے گا"۔منعم نے اس کے کندھے پہ ہاتھ مارا تو منصور پھیکا سا مسکرادیا۔


"اس کی چپ کا روزہ اپنی روزی کو دیکھ کر ہی ٹوٹے گا"۔حیدر نے لقمہ دیا۔


"بکواس بند کرو،نہیں تو پٹوگے میرے ہاتھوں"۔منصور نے اسے گھوری سے نوازا۔


"تو کیا غلط کہہ رہا ہوں؟جب سے وہ گئی ہے تیرے انداز بالکل بدل گئے ہیں۔ہونٹوں پہ تالا لگا رکھا ہے۔ کہاں وہ منصور جس کی شرارت سے اسٹوڈنٹس تو کیا، پروفیسرز بھی محفوظ نہیں رہتے تھے۔ اور کہاں اب یہ حال کہ صرف رپورٹنگ کرتے وقت تو کھل کر بولتا ہے، باقی صرف کام کی بات کرتا ہے“۔ حیدر نے اس کی کلاس لی۔


منصور نے کوئی جواب نہ دیا۔وہ چپ چاپ سامنے دیکھتا رہا۔


حیدر اور منعم آپس میں جانے کیا کچھ کہتے رہے۔


وہ ان کی باتوں سے بے نیاز اپنی ہتھیلیاں کھولے،ان کی لکیروں میں نہ جانے کیا تلاش کررہا تھا۔


"کیا سوچ رہا ہے یار،کچھ بول ناں"۔حیدر نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔


"سوچ رہا ہوں کہ جو مقدر میں لکھے نہیں ہوتے،وہ زندگی میں کیوں ٹکراجاتے ہیں؟جن سے تقدیر کا ستارہ نہیں ملتا،وہ دل میں ڈیرے ڈال کر کیوں بیٹھ جاتے ہیں؟"۔


وہ دونوں چپ کے چپ رہ گئے۔ ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں رہا تھا۔ اس کا دکھ وہ کبھی کم نہیں کرسکتے تھے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔


وہ کوئی عجیب سی جگہ تھی۔عجیب بدبو سی طبیعت مکدر کرتی تھی۔


گھور اندھیرا ہر طرف چھایا ہوا تھا۔اور اس اندھیرے میں ایک روشن الاؤ بھڑک رہا تھا۔اس الاؤ کے پاس خوفناک شکل والی ایک مورتی موجود تھی،جس کے پیروں میں ایک خون سے بھرا پیالہ رکھا تھا۔


منظر ذرا واضح ہوا تو آگ کے الاؤ کے گرد ایک ننگ دھڑنگ شخص ناچتا دکھائی دیا۔ناچتے ہوئے وہ بے معنی مگر وحشیانہ آوازیں نکال رہا تھا۔


پھر ایکدم وہ رکا، نیچے جھک کر کسی نامعلوم زبان میں کچھ پڑھتے ہوئے اس نے خون سے بھرا پیالہ اٹھایا، کچھ خون مورتی پر ڈالا اور بقیہ اپنے سر پر انڈیل دیا۔ پھر ایک وحشتناک مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی۔


وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا ۔


دل یوں دھڑک رہا تھا گویا پسلیوں کا پنجرہ توڑ کر باہر نکل آئے گا۔ جسم الگ پسینے میں شرابور تھا۔


آج تیسری بار اسے یہ خواب نظر آ یا تھا۔


تسلسل سے ایک ہی خواب دکھائی دینے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی تھی۔ اب تو اسے سونے سے بھی ڈر لگنے لگا تھا۔ کون تھا وہ شخص جو اسے خواب میں نظر آتا تھا؟ کیوں وہ مسلسل ایک ہی خواب دیکھے جاتا تھا؟؟ اسے ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں مل پاتا تھا۔


"ہادی پٹ(بیٹا)، کیا ہوا؟ تیری طبیعت ٹھیک ہے؟؟"۔


قریب ہی دوسری چارپائی پر سوئی ہوئی سکینہ اٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔


"ہاں اماں ، ٹھیک ہوں۔۔تم سوجاؤ "۔وہ بے دلی سے کہتا اٹھا۔


"کہاں جارہا ہے اتنی رات کو؟"۔ماں کو فکر لاحق ہوئی۔


"اماں،پانی پینے جارہا ہوں،اور کہاں جاؤں گا بھلا"۔ وہ بے زاری سے کہہ کر صحن میں ایک طرف مٹی کی چھوٹی سی دیوار پر رکھے گھڑے کے پاس آیا اور وہاں پڑے گلاس میں پانی لیکر پینے لگا۔


سکینہ تب تک جاگتی رہی تھی جب تک وہ سو نہیں گیا۔ بڑے بیٹے فاخر کی موت کے بعد وہ حد درجہ وہمی ہوگئی تھی۔


اس کا تو بس چلتا تو وہ کبھی ہادی کو اپنی آنکھوں سے دور نہ کرتی مگر مجبور تھی۔


وہ اسے گھر میں قید نہیں کرسکتی تھی۔


ہادی کا بڑا بھائی فاخر، ایک ہنس مکھ اور خوش اخلاق نوجوان تھا۔ وہ صحیح معنوں میں محفلوں کی جان تھا۔ جہاں جاتا چھاجاتا، محفلیں زعفران زار بن جاتیں، اداس چہروں پہ مسکراہٹیں دوڑنے لگتیں۔


وہی فاخر، ایک روز صبح کے ملگجے اندھیرے میں اپنے گھر سے کچھ دور لاش کی صورت درخت سے لٹکا پایا گیا۔


ہادی کی پردہ تصور پہ کسی فلم کی صورت اس صبح کے واقعات نمایاں ہونے لگے۔


____


جاری ہے۔

Post a Comment

0 Comments