Bhopal gas disaster

 The Bhopal gas disaster

تحریر اور ریسرچ: سحر سلیم حسن

Bhopal gas disaster
Bhopal gas disaster


وہ دسمبر کے سرد موسم کی ایک رات تھی۔ تاریخ تھی 3 ڈسمبر 1984۔ انڈیا کے مدھیا پردیش کے علاقے بھوپال کے اکثر لوگ گہری نیند سوئے ہوئے تھے اور انہیں بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ ان پر کون سی قیامت ٹوٹنے والی ہے؟

بھوپال کے ریلوے اسٹیشن بھوپال جنکشن پر رات ایک بجے کے قریب ایک ٹرین آکر رکی، یہ گورکھپور بومبے ایکسپریس تھی۔ اسٹیشن پر اس وقت اسٹیشن سپرٹینڈنٹ H.S Bhurvey اور

ڈیپوٹی اسٹیشن سپرٹینڈنٹ غلام دستگیر نائٹ ڈیوٹی کر رہے تھے۔

ٹرین کے پلیٹ فارم پر رکنے کے بعد غلام دستگیر باہر نکلے، اچانک ہی انہیں اپنی آنکھیں جلتی محسوس ہوئیں، گلے میں سرسراہٹ ہوئی اور پھر وہ بری طرح کھانسنے لگے۔ غلام دستگیر کو لگا کہ شاید ان پر اچانک ہی سردی کی وجہ سے کسی بیماری کا اٹیک ہوا ہے۔ وہ کھانستے ہوئے اپنے سینئر آفیسر ایچ ایس بھروے کو تلاش کرنے لگے جب ایک جگہ ان کے قدم زمیں پر جم سے گئے۔

کیونکہ ان کو سامنے ہی بھروے زمین پر گرے ہوئے نظر آئے۔ وہ گھبرا کر نیچے جھکے اور انہیں اٹھانے کی کوشش کرنے لگے۔ (بھروے سر، سر اٹھیے پلیز، کیا ہوا آپ کو؟ بھروے سر! ) لیکن چند لمحے بعد انہیں ریلائیز ہوا کہ بھروے کی سانسیں نہیں چل رہیں، وہ مر چکے ہیں۔ دستگیر کو خود کو سنبھالنے اور صورتحال سمجھنے میں تھوڑی دیر لگی، اس کے بعد وہ فورا اٹھے اور دوڑتے ہوئے اس ٹرین کے قریب پہنچے جو ابھی ابھی پہنچی تھی، اور اسے مزید 20 منٹ تک رکنا تھا (وہ زور سے چلائے، ” ٹرین کو نکالو، جلدی کرو ورنہ سب مرجائیں گے، میں اس پروٹوکول بریکنگ کی پوری زمہ داری لیتا ہوں چلو جلدی کرو“) ٹرین کو وہاں سے روانہ کرنے کے بعد دستگیر نے بہتی آنکھوں کے ساتھ، مڑ کر شہر کی طرف دیکھا۔

پیدل لوگوں کا ایک بڑا ہجوم اسٹیشن کی طرف آ رہا تھا، بہت سے لوگ اپنی گاڑیوں میں شہر سے باہر بھاگ رہے تھے۔ اسٹیشن پر ہر طرف آہ و بکا تھی، لوگ بری طرح کھانس رہے تھے، رو رہے تھے اور۔۔۔۔ ان میں سے بہت سے الٹیاں کر رہے تھے۔

دستگیر کو لگا وہ جس قیامت کے بارے میں سن کر بڑے ہوئے تھے، آج وہ اسی قیامت کو اس شہر میں برپا ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔

لیکن نہیں، یہ وہ قیامت تو نہیں تھی، اس قیامت کو تو کچھ بے پروا اور خود غرض لوگوں نے برپا کیا تھا۔


اور یہ قیامت پھوٹی تھی اس Union Carbide factory سے جو شہر سے صرف 1 کلومیٹر دور تھی۔ اس فیکٹری کی اونر کمپنی بیٹریز سے لے کر راکٹ فیول تک بناتی تھی اور اس سارے پروسیجر میں وہ مدد لیتے تھے تھے کچھ ایسی خطرناک گیسز کی جو کسی بھی سانس لینے والے وجود کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی تھیں۔ اور انہیں گیسز میں سے ایک MIC، اس فیکٹری میں مینو فیکچر کی جاتی تھی جس میں اور بھی بہت سی گیسز شامل تھیں۔

اور اب اس فیکٹری میں ہونے والے ایک خطرناک حادثے کے نتیجے میں 50,000 pound زہریلی گیسز لیک ہوئی تھیں، جو اب شہر بھر کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھیں۔ ان گیسز میں MIC, Hydrogen Cyanide اور Phosgene جیسی زہریلی گیسز شامل تھیں جو بہت بڑی مقدار میں لیکیج کی وجہ سے شہر بھر کے لیے خطرہ بن چکی تھیں، گھبرائے اور سہمے ہوئے لوگوں میں سے بہت سے گاڑیوں پر نکل بھاگے تھے، کچھ ہاسپٹلز کی طرف دوڑے کہ ان سے سانس لینا مشکل ہو رہا تھا۔ اور بہت سوں نے کسی ٹرین کی تلاش میں اسٹیشن پر آکر اسی کو اپنی پناہ گاہ سمجھ لیا تھا، جہاں پر اس وقت سب سے سینئر آفیسر دستگیر ہی تھے اور اب یہ سب انہیں ہی ہینڈل کرنا تھا۔ دستگیر نے سب سے پہلے آس پاس کے ریلوے اسٹیشنز اور جنکشنز کو SOS سگنل بھیجا اور مدد مانگی۔ جلد ہی چار ایمبولینسز کے ساتھ پیرا میڈیکس اور ریلوے ڈاکٹرز بھی مدد کو پہنچ گئے۔ دستگیر ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم کی طرف بھاگتے ہوئے اور لوگوں کی مدد کرتے ہوئے اپنا آپ بھی بھلا چکے تھے۔ اور جب انہیں پتہ چلا کہ ان کے سینئر آفیسر بھوروے بھی مرنے سے پہلے ایک ٹرین کو نکالنے کی کوشش کرتے ہوئے جان سے گئے تو ان پر گویا جنون سا چھا گیا۔ وہ پاگلوں کی طرح لوگوں کو وہاں سے نکالنے اور ایمبولینسز تک پہنچانے کی کوشش کرنے لگے۔

دستگیر کو پلیٹ فارم پر چھوڑتے ہوئے ہم دوبارہ شہر کی طرف آئیں تو اسپتالوں کے سامنے ایک ہجوم دکھائی دیتا ہے۔ ہر کسی کو ایک ہی شکایت ہے، ”میری آنکھیں جل رہی ہیں اور میرا دم گھٹ رہا ہے“۔ رکتی ہوئی سانسوں کے ساتھ یہ کہتے ہوئے کئی لوگ چکرا کر گر پڑے جنہیں ڈاکٹرز اور دوسرا اسٹاف اٹھا کر ہاسپٹل میں لے جاتا ہے۔ اس فیکٹری سے 3 کلومیٹر دور ایک ہاسپٹل تھا، حمیدیہ ہاسپٹل۔۔ اس ہاسپٹل میں 1200 بیڈز تھے، یہاں پر پہلا مریض رات کے کوئی ایک بجے کے بعد آیا تھا، اور اس کے بعد جیسے مریضوں کی بارش ہو گئی۔ 1000 آدمی چیختے چلاتے مدد مانگ رہے تھے، لیکن ڈاکٹرز کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کچھ ہو کیا رہا ہے؟ یہ کیسی بیماری ہے جس کے بارے میں ان میں سے کوئی نہیں جانتا؟ اور وہ کس چیز کا اور کیا علاج کریں؟

اس دوران کچھ حاضر دماغ قسم کے ڈاکٹرز نے یہ سوچتے ہوئے کہ شاید اس کا فیکٹری سے خارج ہونے والے مواد سے کوئی تعلق ہو، Carbide factory سے رابطہ کر کے یہ معلوم کرنے کی بھی کوشش کی کہ کیا فیکٹری میں کوئی حادثہ ہوا ہے؟ تب فیکٹری کے منیجنگ ڈائریکٹر L.D Loya نے کہا کہ یہ گیس زہریلی ہے مگر جان لیوا نہیں ہے، جو لوگ متاثر ہوئے ہیں ان کی آنکھوں پر ایک پانی میں بھیگی ہوئی پٹی رکھ دیں وہ ٹھیک ہو جائیں گے“۔ صرف ڈاکٹرز ہی نہیں، بلکہ یونین کاربائیڈ فیکٹری نے پولیس سپرٹینڈنٹ سوراج پوری سے بھی جھوٹ بولا جب انہوں نے رات 1:25 منٹ پر فون پر سچویشن جاننے کی کوشش کی۔ انہوں نے تین بار فون کیا، دو بار انہیں سب اوکے کی رپورٹ سنائی گئی اور تیسری بار کہا گیا کہ ”سر ہم کچھ نہیں جانتے کہ کیا ہو رہا ہے؟“۔


شہر بھر کے اسپتالوں میں 4000 سے زیادہ مریض موجود تھے۔ اسٹیشن پر صورتحال اور بھی خراب تھی، ہزاروں لوگوں کو نکالنا ممکن نہیں رہا تھا، چند ایمبولینسز اور تھوڑا سا عملہ کیا کرلیتا؟ لیکن کھانستے ہوئے دستگیر مسلسل لوگوں کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ دستگیر اگر چاہتے تو اس رات وہ اپنی اور اپنے گھروالوں کی جان بچانے کے لیے بھاگ بھی سکتے تھے جیسے کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے اور بھی بہت سے ریلوے اسٹاف نے کیا، ان کی بیوی اور بچے اس Union Carbide factory سے صرف 3 کلومیٹر دور اپنے گھر میں ان کا انتظار کر رہے تھے، لیکن دستگیر نے میدان چھوڑ کر بھاگنا گوارا نہیں کیا۔ گھروالوں کو خدا کے حوالے کر کے دستگیر نے اسٹیشن پر اپنی موجودگی کو ہی اہم سمجھا۔ وہ ہر آنے والی ٹرین کو رکنے کی بجائے فورا ہی آگے بڑھنے کا اشارہ کر کے ٹرین کے مسافروں کو بچانے کی کوشش کرتے رہے۔

دوسری طرف ڈاکٹرز بھی اپنے پیشنٹس کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے مگر جب تک انہیں صحیح وجہ نہ معلوم ہوتی وہ پراپر علاج نہیں کر سکتے تھے۔ اپنی سمجھ اور عقل کے مطابق وہ آنکھوں کی جلن کے لیے eye drops, Inflammationکے لیے Steroids اور اینٹی بائیوٹکس کے علاوہ سانس کی بحالی کے لیے آکسیجن دینے لگے۔

لیکن جب تک وہ یہ نہیں جان لیتے کہ یہ کس زہریلی گیس کا ایفیکٹ ہے، وہ صحیح علاج تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔ ڈاکٹرز میں سے کچھ کا خیال تھا کہ یہ Phosgene poisoning ہے کیونکہ آج رات سے تین سال پہلے بھی Phosgene leakage سے اسی فیکٹری میں کام کرتے ہوئے ایک ملازم اشرف محمد کی موت ہوئی تھی، اس نے تھوڑی دیر کے لیے اپنا گیس ماسک نیچے کیا تھا اور انہی علامات کا شکار ہو کر اگلے 72 گھنٹوں میں جان گنوا بیٹھا تھا۔ اس کی موت کو لے کر ایک جرنلسٹ Rajkumar Keswani نے ایک انویسٹیگیشن کی تھی جسے لوکل نیوز پیپر میں کچھ آرٹیکلز اور رپورٹس کی شکل میں پیش کیا گیا تھا۔ راج کمار کیسوانی نے اپنا کام کرتے ہوئے نہایت ایمانداری سے بتایا تھا کہ بھوپال شہر ایک آتش فشاں کے دہانے پر بیٹھا ہوا ہے جو کبھی بھی پھٹ سکتا ہے۔ ان کی فائنڈنگز میں یہ بات واضح کی گئی تھی کہ یونین کاربائیڈ فیکٹری میں استعمال ہونے والی زہریلی گیسز کسی بھی وقت سارے ایریا کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں، اور جیسا کہ پاکستان اور انڈیا میں ہوتا ہے، ان ساری باتوں کا نہ عام لوگوں پر کوئی اثر ہوا تھا، نہ ہائی اتھارٹیز پر۔ جس کا خمیازہ وہ دسمبر کی اس سرد رات میں بہت سی جانیں گنواتے ہوئے اٹھا رہے تھے۔

فیکٹری کی طرف سے اب صرف یہ بتایا جارہا تھا کہ یہ MIC (Methyl isocyanate) گیس ہے، اس کی وجہ سے اور کوئی خطرہ نہیں ہوگا بس Irritation ہوگی جس کے لیے پانی میں بھگو کر کپڑا آنکھوں پر رکھ لیں، مگر اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا اور صورتحال خراب سے خراب ہوتی گئی۔ کئی لوگ جان کی بازی ہارگئے۔ اس لیے ڈاکٹرز نے رائے قائم کی کہ یہ Phosgene cyanide گیس ہے کیونکہ MIC کے مقابلے میں Phosgene بہت جلدی اور کم درجہ حرارت پر بھی vaporize ہوجاتی ہے۔


اس دوران Carbide کے امریکہ میں بیٹھے میڈیکل ڈائریکٹر Bipin Avashia نے بھوپال اتھارٹیز کو بتایا کہ اگر Cyanide کا شک ہے تو Sodium thiosulphate کو اینٹی ڈوٹ کے طور پر یوز کریں۔ لیکن 10 دن بعد اپنی کانفرنس میں وہ اس بیان سے پھر گئے کہ یہ کوئی سائنائڈ اٹیک نہیں تھا، اس لیے یہ اینٹی ڈوٹ بیکار ہے۔ لیکن اس سے پہلے ہی ایک جرمن Toxicologist جن کا نام Max Daunderer تھا، اپنے ساتھ 50٫000 کے قریب Sodium thiosulphate کے ڈوز لے کر پہنچے، اس ڈوز سے لوگوں کو فائیدہ بھی ہونے لگا لیکن پھر یہ ڈوز دیتے ہوئے ایک آدمی مرگیا، اور اس جرمن ڈاکٹر کو واپس بھیج دیا گیا۔

یہ اور بات ہے کہ بعد میں سرکاری مشینری نے اسی سوڈیم تھیوسلفیٹ کو گیس وکٹمز کے علاج کے لیے استعمال کیا، لیکن تب تک ہزاروں لوگ مر چکے تھے۔

اسٹیشن پر مصروف دستگیر نے ہزاروں لوگوں کی جان بچالی، لیکن وہ خود اس زہریلی گیس کے ایفیکٹ سے اس قدر بیمار ہوئے کہ زندگی بھر کے لیے اسپتال کے چکر کاٹتے رہے۔

Who was responsible for Bhopal disaster?

بعد کی تفتیش سے پتہ چلا کہ اس حادثے میں زیادہ ذمے داری کاربائیڈ فیکٹری اور گورنمنٹ کی تھی، اور اس کی وجوہات یہ تھیں:

1 ) کاربائیڈ فیکٹری نے سیلز بڑھانے اور خرچے کم کرنے کے لیے پرانے ورکرز کو فائر کیا اور کم پیمنٹ پر جن نئے لوگوں کو ہائر کیا گیا وہ اتنے کوالیفائیڈ نہیں تھے، نہ انہیں کوئی خاص ٹریننگز مہیا کی گئیں۔

2 ) پیسے بچانے کے چکر میں لیک ہونے والے پائپس کو بدلنے کی بجائے انہیں پرانے پائپس کو ریپیئر کر کے کام چلانے کی کوشش کی جاتی رہی جس کی وجہ سے بار بار لیکیج ہوتی، حادثے والی رات بھی ایک پائپ لیک ہونے کی وجہ سے گیس نکلی اور ہوا سے پورے شہر میں پھیل گئی۔ MIC کے ایک ٹینک میں پانی داخل ہوگیا، جس کی وجہ سے گیس Vaporize ہوئی اور پھر۔۔۔ ایک خطرناک نتیجہ ظاہر ہوا۔

3 ) ایک خطرناک گیس کو مینو فیکچر کرنے کی صورت میں کمپنی کی یہ زمہ داری بنتی تھی کہ لوگوں کو اس بات کی آگاہی دیتی کہ گیس لیکیج ہونے کی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟ مگر ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔ بلکہ عام لوگوں اور فیکٹری ورکرز کو اس بات کی خبر تک نہیں تھی کہ یہاں پر کوئی ڈینجرس چیز بھی تیار ہو رہی تھی۔

4 ) اس ساری تباہی کی پیش گوئی پہلے ہی کی جاچکی تھی، مرنے والے ورکر اشرف محمد کے دوست جرنلسٹ راج کمار کیسوانی نے نہ صرف اپنے آرٹیکلز میں یہ بات بتائی بلکہ ہائیر اتھارٹیز سے لے کر سپریم کورٹ تک کو اس بارے میں لکھا مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی، اور فیکٹری مسلسل جاری رہی۔

اور ان ساری بے پرواہیوں نے ایک بہت ہی خطرناک ترین المیے کو جنم دیا، جو Bhopal disaster کے نام سے آج تک تاریخ کے سب سے بدترین industrial ڈزاسٹر کے نام سے جانا جاتا ہے جس میں 3,787 سے لے کر 16000 لوگوں کی جان گئی اور 5,58125 انجریز ہوئیں۔ کاربائیڈ فیکٹری جس کا نام چینج کر کے بعد میں Everyday رکھا گیا تھا، کی طرف سے انڈین گورنمنٹ کو compensation دیا گیا لیکن شاید اس میں سے بہت سا حصہ وکٹمز کی فیملیز کو نہیں ملا، جس کی وجہ سے ایک عرصے تک بھوپال میں احتجاج ہوتا رہا، اور آج بھی لوگ اس ڈزاسٹر میں مرنے والے اپنے پیاروں کو یاد کر کے رو پڑتے ہیں۔

Post a Comment

0 Comments