Haji Muhammad Mustafvi (A serial killer)

 Haji Muhammad Mustafvi (A serial killer)



حاجی محمد مصفوي۔۔۔۔ ایک ہتھیارے کا بھیانک انجام!!

تحریر: ستونت کور 


حاجی محمد مصفوي کا تعلق مراکش 🇲🇦 کے چوتھے بڑے شہر مراکش سے تھا ۔ وہ 1850 کی دہائی میں پیدا ہوا ۔

پیشے کے اعتبار سے وہ ایک موچی تھا ۔ مراکش شہر کے ایک بازار میں اس کی دکان تھی ۔ موچی ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے پاس ایک ایسا ہنر تھا کہ جو اس دور میں افریقہ میں بہت کمیاب تھا ۔اور وہ یہ کہ مصفوي پڑھنا لکھنا جانتا تھا ۔ چنانچہ لوگ اپنے خط ، رقعہ جات ، پوسٹ کارڈ اور دستاویزات اس سے لکھوانے اور پڑھوانے آیا کرتے تھے ۔

انہی لوگوں میں کئی نوجوان لڑکیاں بھی ہوتیں کہ جنہوں نے کوئی خط لکھوانا یا وصول شدہ خط پڑھوانا ہوتا تھا ۔

مصفوي نجانے کب اور کیسے ایک نفسیاتی درندے میں بدل چکا تھا اور 1890 کی دہائی تک وہ ایک مکمل ٹارگٹ کلر میں ڈھل گیا تھا ۔

وہ اپنی دکان پر آئی نوجوان لڑکیوں کو ایک مشروب میں نشہ اور دوا ڈال کر پیش کرتا ۔ اور جب وہ لڑکی نشہ آور مشروب پی کر ہوش و حواس سے بیگانہ ہو جاتی تو مصفوي اسے تیز دھار آلے سے مار ڈالتا ۔ اس کے پاس موجود رقم لوٹ لیتا جو کہ اکثر بہت معمولی رقم ہوتی تھی ۔ اور پھر اسے اپنی دکان میں بنے ایک کنواں نما گڑھے میں ڈال کر گڑھا ڈھک دیتا تھا یا پھر اپنے گھر کے صحن میں گڑھا کھود کر دفن کر دیتا تھا ۔

اس کام میں مصفوي کی ایک 70 سالہ رشتے دار خاتون انا بھی شریک تھی ۔

مجموعی طور پر اس نے 36 خواتین کا خون کیا یہاں تک کہ اپریل 1906 میں مراکشی پولیس نے گمشدہ خواتین کے کیس کی تفتیش کے دوران شک کی بنا پر اس کی دکان پہ چھاپہ مارا اور اس کے گھر سے مدفون خواتین کی باقیات کو برآمد کر لیا ۔

مصفوي اور انا کو گرفتار کر لیا گیا ۔۔۔

دورانِ تفتیش پولیس کے تشدد سے انا ہلاک ہوگئی ۔

جبکہ مصفوي نے سب کچھ اگل دیا کہ کیسے ان سب خواتین کی گمشدگی اور موت میں وہ ملوث تھا ۔

یہ خبر عام ہونے پر عوام کا غم و غصہ کسی آتش فشاں کی طرح ابلنے کو آگیا ۔


12 مئی 1906 کے دن عدالت نے مصفوي کو مصلوب کرنے کی سزا سنا دی ۔

لیکن۔۔۔ "عالمی برادری" اور " انسانی حقوق کی تنظیموں" نے اس سزا کو " ظالمانہ اور وحشیانہ" قرار دیتے ہوئے مراکشی حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ اس سزا کو تبدیل کر دیں۔ 

یورپ بالخصوص فرانس کی جانب سے دباؤ کے پیشِ نظر مراکشی حکومت نے مصفوي کو صلیب پے چڑھانے کی سزا کو معطل کر دیا ۔

اور نئی سزا یہ مقرر کی کہ اسے پہلے ایک ماہ تک روزانہ بازار میں لا کر عوام الناس کے سامنے کیکر کی کانٹے دار چھڑیوں سے بیہوش ہونے تک پِیٹا جائے گا اور پھر ایک ماہ کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا ۔۔۔۔ جینئیس !!

چنانچہ اب روزانہ مصفوي کو گھسیٹ کر بازار میں لایا جاتا اور کانٹے دار لکڑیوں سے مار مار کر ادھ موا کر دینے کے بعد اس کی مرہم پٹی کر کے اسے واپس جیل میں ڈال دیا جاتا ۔

اور پھر ۔۔۔۔

11 جون 1906 کو مصفوي کو بازار میں لایا گیا ۔

اسے ایک مقام پر کھڑا کر کے اس کے اردگرد دیوار کی تعمیر شروع کر دی گئی ۔۔۔۔ یہاں تک کہ اسے زندہ دیوار میں چن دیا گیا ۔۔۔ اندر بمشکل دو تین مربع فٹ کی جگہ تھی جہاں دو دن تک اس کے چیخنے چلانے، رونے اور دیوار پر ہاتھ مارنے کی آوازیں آتی رہیں اور پھر تیسرے دن خاموشی چھا گئی ۔۔۔ یہ تھا مصفوي کا انجام!!

Post a Comment

0 Comments