The biggest Air crash: Iranian president Ebrahim Raisi killed in Helicopter crash
تحریر: سحر سلیم حسن۔
![]() |
Getty images |
یہ 19 مئی 2024 کا ایک گرم دن تھا۔
آذربائجان اور ایرانی سرحد کے درمیان تین ہیلی کاپٹرز اڑتے ہوئے ایرانی سرحدوں کی طرف جارہے تھے، ان ہیلی کاپٹرز میں ایران کی ہائی پروفائل شخصیات سوار تھیں جن میں Iranian president Ebrahim Raisi، فارن منسٹر حسین امیر عبداللہیان، اور ان کا دوسرا عملہ تھا۔ دو ہیلی کاپٹرز آگے بڑھ گئے لیکن تیسرا ذرا پیچھے تھا۔ یہ بیل 212 ہیلی کاپٹر جلفہ کے مقام پر پہنچا، یہاں پر موسم بے حد خراب تھا۔ گہری دھند نے ہر چیز کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔ آگے جانے والے دونوں ہیلی کاپٹرز تو نکل گئے لیکن تیسرے ہیلی کاپٹر کی قسمت میں کچھ بہت ہی برا لکھا تھا۔
گہری دھند کے پار ایک زوردار دھماکہ ہوا اور اس ہیلی کاپٹر کے جلتے ہوئے ٹکڑے بہت دور دور تک جا گرے۔ اس کے ساتھ ہی اس میں سوار لوگوں کے بھی پر خچے اڑ گئے، ہر طرف خون اور جلے ہوئے گوشت کی بو پھیلی گئی۔
یہ تھا اس صبح کا منظر جبIranian president ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو وہ شدید اور اندوہناک حادثہ پیش آیا جس نے ایران کو ہی نہیں، پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔
Who was Ebrahim Raisi?
اس سے پہلے کہ آگے کی بات کریں، مختصر طور پر یہ جاننا ضروری ہے کہ ابراہیم رئیسی کون تھے اور ایران میں ان کی کیا اہمیت تھی؟
سال 1960 میں مشہد میں جنم لینے والے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے قم شہر کے ایک مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔ 25 سال کی عمر کو پہنچے تو ایرانی عدلیہ میں پراسیکیوٹر کی حیثیت سے کام کرنے لگے، ابراہیم رئیسی تہران کے ڈپٹی پراسیکیوٹر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ انہوں نے 1979 میں شاہِ ایران کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور انقلابِ ایران میں بھی زبردست حصہ لیا۔ وہ 1981 میں ایران کے صدر بننے والے مشہور سپریم انقلابی لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے بہت قریب تھے۔
2017 میں انہوں نے الیکشن میں حصہ لیا مگر اپنے مقابل امیدوار حسن روحانی سے ہار گئے۔ وہ ایران کے چیف جسٹس بھی رہے اور اس کے علاوہ بھی کئی اہم اور زمہ دار عہدوں پر کام کر چکے تھے۔
2021 میں وہ ایران کے صدر بن گئے، وہ خامنہ ای کے بہت ہی قریبی اور خاص ساتھی سمجھے جاتے تھے اور یہ توقع کی جارہی تھی کہ ایران کے آئندہ رہبرِ اعلیٰ ابراہیم رئیسی ہی بنیں گے۔
انہیں ان کے مخالفین اور سیاسی کارکنان اور ان کے گھر والوں کی جانب سے ہمیشہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ اپنے قدامت پسند خیالات کے باعث وہ دہری شہریت اور مغربی ذہنیت والے افراد کے ساتھ بے حد سخت رویہ اختیار کرتے ہیں اور انہیں کسی ہتھیار کی طرح استعمال کرتے ہیں۔
2022 میں انہیں سخت مشکل کا سامنا کرنا پڑا جب مہسا امینی کی دوران حراست موت کی وجہ سے ملک بھر میں شدید احتجاج اور مظاہرے ہوئے، مظاہرین میں شامل عورتوں نے اپنے حجاب جلائے، اتارے اور احتجاجی طور پر اپنے بال بھی کاٹ دیے۔ یہ احتجاجی ریلیاں 2023 تک جاری رہیں اور اس دوران 500 سے زائد افراد نے اپنی جانوں سے ہاتھ دھوئے، مظاہروں کو ختم کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کو حرکت میں آنا پڑا۔
Iran-Israel conflict
سارے خطے میں تناؤ میں اضافہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے ہوا تھا، لیکن ایران اسرائیل جنگ کی شروعات 1 اپریل کو اسرائیل کی طرف سے دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر ہونے والے حملے کی وجہ سے ہوئی تھی جس میں ایرانی پاسداران انقلاب کے لیڈر سمیت 11 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اس حملے کا بدلہ لینے کے لیے ایرانی حکومت نے 300 سے زیادہ ڈرونز اور میزائل فائر کیے جن میں اسرائیلی دفاعی تنصیبات اور فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ جس کے بعد اسرائیل مناسب وقت آنے پر بدلہ لینے کا منتظر تھا۔ اب واپس 19 مئی کے اس دھند بھرے دن کی طرف آتے ہیں جب ہیلی کاپٹر کے جلتے ہوئے ٹکڑوں کے درمیان بے حس و حرکت گوشت کے لوتھڑے کسی کی آمد کے منتظر تھے۔
Why helicopter got crashed?
جب ریسکیو ٹیمز وہاں پہنچی تو شدید دھند، بارش اور خراب موسم کی وجہ سے حدِ نظر 5 میٹر تک ہی تھی۔ ایسے میں ہیلی کاپٹر اور ڈیڈ باڈیز کو ڈھونڈنا بے حد مشکل رہا، کیونکہ خراب موسم کی وجہ سے نہ تو ہیلی کاپٹرز اس سرچ مشن میں حصہ لے پا رہے تھے نہ ہی ڈرونز۔۔ لیکن پھر بھی انہوں نے تلاش نہ چھوڑی کیونکہ ہیلی کاپٹر میں ایرانی قیادت کے بہت بڑے نام سوار تھے جن میں وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان، مشرقی آذربائیجان کے گورنر ملک رحمتی اور صوبے میں ایرانی صدر کے نمائندے آیت اللہ محمد علی شامل تھے۔ رات گئے ترکی کے بیراکتر اکنسی ڈرون نے دو ہاٹ اسپاٹس کی نشاندھی کردی۔ ڈیڈ باڈیز کو تلاش میں کامیابی کے بعد انہیں ایرانی شہر تبریز لانے کے لیے روانہ کیا گیا جہاں پر نماز جنازہ کے بعد روضہ امام علی رضا علیہ السلام کے احاطے میں ان کو دفن کیا جائے گا۔ سوشل میڈیا پر یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اس حادثے کے پیچھے بالواسطہ یا بلا واسطہ اسرائیل کا ہاتھ ہے۔ اور اگر ہم گزشتہ دنوں کے بدلتے حالات پر نظر ڈالیں تو یہ قیاس صحیح بھی لگتا ہے۔ یہ تو انویسٹیگیشن کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ اس میں کون ملوث تھا؟ لیکن اس حادثے کے ساتھ ہی ایک بڑی جنگ کی ابتدا ہوتی نظر آرہی ہے، دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ شاید یہ حادثہ World war III کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
0 Comments