Case number 3
House of death (Story of Jeffrey Dahmer)
یہ milkuwee ہے امریکہ کا شہر جہاں زندگی بڑی تیزی سے دوڑتی جاتی ہے۔ اور انسانوں میں سے کچھ اس کے ساتھ قدم سے قدم ملانے کی کوشش میں بھاگ رہے ہیں، تو کچھ زندگی کے ہر ظلم و ستم سے بے نیاز نشے کی بانہوں میں جھولتے دکھائی دیتے ہیں۔
انگریزوں کی شہنشاہی کو قصہء پارینہ ہوئے سالوں بیت گئے ہیں اور امریکہ نے تازہ تازہ قدامت سے جدت کی طرف قدم بڑھایا ہے، اس کی طاقت کا جادو سر چڑھ کر بولتا نظر آتا ہے۔ شہر پر ایک سرسری نظر دوڑاؤ تو نظریں ایک اپارٹمنٹ پر رک جاتی ہیں۔ یہاں ہر طرف ابتری مچی ہوئی ہے، معلوم ہوتا ہے اہلِ خانہ کو نظم و ضبط کے ساتھ کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے، ایک طرف صوفے پر میلے کپڑے پڑے ہیں۔ دھلے ہوئے کپڑے دوسری طرف بنا تہہ کیے مکین کی لاپروائی کا شکوہ کرتے نظر آرہے ہیں۔ ڈائننگ ٹیبل پر ان دھلے برتن، شراب کی خالی بوتلیں اور گلاس بکھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اکثر گھروں میں یہ بدنظمی دیکھنے کو ملتی ہے مگر یہاں کچھ اور بھی ہے۔۔ بدبو، کچے گوشت کی جی متلادینے والی شدید بدبو۔۔
یہاں چھائی خاموشی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ کوئی یہاں رہتا ہی نہیں، لیکن۔۔۔
بیڈ روم کے اندر جاؤ تو ایک نوجوان، ایک ہاتھ میں جام تھامے کھڑکی میں کھڑا نظر آتا ہے، پینٹ شرٹ میں ملبوس یہ نوجوان خاصا خوبصورت ہے۔ گوری رنگت، بھورے بال اور بڑی بڑی انکھیں، چہرے پر چھوٹی سی بڑھی ہوئی داڑھی اور مونچھیں بھی ہیں۔ آنکھوں پر نظر کا چشمہ چڑھائے وہ کھڑکی سے باہر کی دنیا دیکھ رہا تھا۔ کافی دیر تک وہاں کھڑا وہ گلاس میں موجود مشروب کی چسکیاں لیتا رہا۔ اگر وہ مسکراتا تو یقینا کئی دوشیزاؤں کے دلوں کی دھڑکن بن جاتا، لیکن اس کے چہرے پر عجیب سی کرختگی تھی، گلاس خالی کرنے کے بعد اس نے کچن کا رخ کیا، گلاس کو میز پر رکھنے کے بعد کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا اور ایک ڈھکی ہوئی پلیٹ کو دیکھنے لگا۔
کچھ دیر تک وہ اس کو گھورتا رہا، پھر ایک جھٹکے سے پلیٹ اتار کر ایک طرف کی اور چھری کانٹے کی مدد سے گوشت کے پیس کاٹ کر کھانے لگا۔
”It is just a pieces of meat”
(یہ صرف گوشت کا ایک ٹکڑا ہے)
بڑبڑاتے ہوئے اس نے گوشت کا ٹکڑا چبانا شروع کر دیا اور اس کے چہرے پر عجیب سی لذت کا احساس ابھرتا دکھائی دیا۔
پکے ہوئے انسانی دل کا ذائقہ اس کے لیے بہت مزیدار تھا۔۔۔۔!
یہ کوئی عام سا شخص نہیں، Jeffrey Dahmer تھا۔۔
17 لوگوں کا قاتل، Jeffrey Dahmer!
۔۔۔۔۔
مئی 21، سن 1960
یو ایس کی ریاست Wisconsin کے ایک شہر Milwaukee میں رہنے والے Lionel Herbert Dahmer اور Joyce Annette Dahmer (née Flint) کے گھر میں ایک بچے نے جنم لیا۔ بچے کی پیدائش سے قبل ہی لیونل اور جوائس کے درمیان تعلقات کچھ ٹھیک نہیں تھے، وہ دونوں ہی ذہنی طور پر ایک دوسرے سے کافی دور جا چکے تھے۔ ان کے درمیان اکثر جھگڑا ہوجاتا تھا۔
لیونل ایک کیمسٹ تھا، جبکہ اس کی بیوی جوائس ایک ٹیلی ٹائپ مشین انسٹرکٹر تھی۔ بچے کی پیدائش سے قبل ہی جوائس کو منشیات اور نیند کی گولیاں لینے کی عادت پڑچکی تھی۔ لیونل اس بات کو لے کر بہت پریشان تھا، اسے اندازہ تھا کہ جوائس کی یہ عادت بچے کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی۔ اس بات پر ان دونوں کا جھگڑا بھی ہوتا تھا، لیونل الزام عائد کرتا تھا کہ جوائس یہ سب اس کی توجہ بٹورنے کے لیے کرتی ہے، لیکن جوائس روتے ہوئے اس بات سے انکار کردیتی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ اسے سکون اور آرام کی ضرورت ہے، اسی لیے وہ نیند کی گولیاں لیتی ہے۔ انہیں جھگڑوں کے بیچ وقت گزرتا گیا، اور 21 مئی 1960 کو ان کے ہاں ایک لڑکے نے جنم لیا۔ بچے کی پیدائش کی خوشی میں دونوں نے اپنے اختلافات بھلا دیے اور پھر سے ایک ہوگئے۔ لڑکے کا نام انہوں نے Jeffrey رکھا تھا۔ لیکن وہ دونوں نہیں جانتے تھے کہ ایک دن ان کا بیٹاThe Milwaukee cannibal اور Milwaukee monster کے نام سے دنیا بھر میں مشہوری حاصل کرے گا۔
اگر ہم جیفری کے بچپن کو دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے عام بچوں سے بالکل مختلف اور الگ انداز کا بچپن جیا ہے۔ اس کے ماں باپ کے اختلافات نے اس کی پیدائش کے بعد پھر سر اٹھایا اور رفتہ رفتہ ان دونوں کے درمیان حائل خلیج وسیع ہوتی گئی۔ وہ اس عمر میں تھا جب بچوں کو ماں باپ کی بھرپور توجہ اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن لیونل اور جوائس اسے وہ توجہ دینے میں ناکام ہونے لگے۔ جوائس خود اپنے شوہر کی توجہ بٹورنے کے لیے اس سے لڑتی رہتی تھی، اس کی لڑائیوں سے گھر والے ہی نہیں، بلکہ پڑوسی بھی متاثر ہونے لگے کیونکہ جوائس اب ان سے بھی لڑائی کرنے لگی۔
لیونل دیکھ رہا تھا کہ ان کی آپس کی لڑائیوں کا اثر جیفری پر بھی پڑ رہا ہے۔ اس لیے وہ اپنے مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کر جیفری کو اپنے ساتھ ڈرائیو پر لے جاتا تھا۔ ایک روز یونہی ڈرائیو کرتے کرتے اچانک اسے سڑک کے کنارے ایک مردہ پرندہ نظر آ گیا۔
اس پرندے کو دیکھ کر لیونل کے اندر کا کیمسٹ جاگ اٹھا۔ اس نے گاڑی روک دی اور نیچے اتر آیا۔
مردہ پرندے کو اٹھا کر ایک شاپر میں ڈالا اور پچھلی سیٹ رکھ دیا۔ جیفری نے تعجب سے پوچھا۔
” یہ آپ کیا کر رہے ہیں ڈیڈ؟ “.
”مجھے اس کی dissection کرنی ہے“۔
جیفری کو وہ پرندہ کافی دلچسپ معلوم ہوا۔ وہ بار بار مڑ کر اس شاپر کو دیکھتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ دونوں گھر پہنچ گئے تو لیونل پرندے کو اپنے مخصوص کمرے میں لے گیا جہاں وہ مختلف تجربات کرتا رہتا تھا۔ اس نے پرندے کو میز پر رکھا، ماسک پہنا اور سرجری کے آلات اٹھا کر پرندے کی چیر پھاڑ کرنے لگا۔ اچانک اس نے جیفری کو دیکھا جو بڑے دھیان سے اسے ڈائی سیکشن کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ جیفری کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے اس نے اسے قریب بلا لیا اور اس کو پرندے کے مختلف اندرونی اعضا کے بارے میں بتانے لگا۔
اس کے بعد یہ معمول بن گیا تھا، لیونل اپنی اکثر ڈائی سیکشنز میں جیفری کو ساتھ رکھنے لگا۔
جیفری کو بھی یہ سب اچھا لگنے لگا، کچھ عرصے بعد ان کے اس معمول میں تعطل پیدا ہونے لگا۔ کیونکہ اب لیونل کو مردہ پرندے یا جانور اتنے زیادہ نہیں ملتے تھے۔ اور جب یہ وقفہ بڑھنے لگا تو جیفری کو ایک عجیب سے احساس نے گھیر لیا۔ اسے پرندوں کا خون میں لتھڑا ہوا جسم بہت بری طرح یاد آنے لگا۔ اس کے اندر ایک قسم کی بھوک پیدا ہونے لگی، کٹے پھٹے اعضا اور سرخ خون کو دیکھنے کی بھوک۔۔ جو وقت کے ساتھ ساتھ اسے بے چین کرنے لگی۔ اس نے اس بارے میں کسی کو بتایا نہیں( یا شاید کوشش کی ہو مگر بتا نہ پایا ہو)۔
اور ایک دن جب وہ اپنے اضطراب پر قابو نہ رکھ پایا تو اس نے ایک ننھے سے پرندے کی جان لے لی۔ وہ اس وقت ایک ناقابلِ بیان خوشی محسوس کر رہا تھا۔ اس کا باپ گھر پر نہیں تھا اور ماں حسبِ معمول نیند کی گولیوں کے نشے میں چور سو رہی تھی۔ اس نے پرندے کو پکڑا اور اسے لے کر اس مخصوص کمرے میں گھس گیا جو گھر میں اس کا سب سے پسندیدہ حصہ بن چکا تھا۔
اندر پہنچ کر اس نے چاقو اٹھایا اور پرندے کی چیر پھاڑ کرنے لگا۔ اس کے اندر ایک شیطان کروٹ لے کر جاگ رہا تھا۔ اس کے جسم کے ٹکڑے کرنے میں اسے بے حد خوشی محسوس ہو رہی تھی۔
جاری ہے
0 Comments