مچھلی کے پیٹ سے واپسی
جب Spanish ملاح Logi Marquise تین دن تک ایک Blue Wahel کے پیٹ میں زندہ رہا
”وہاں ناقابلِ برداشت بدبو تھی، اور بے انتہا سردی۔ مجھے لگا میں سردی سے ہی ٹھٹھر کر مر جاؤں گا۔ مجھے حیرت ہوتی کہ میں زندہ کیسے ہوں؟“.
نئی زندگی پانے والے اس ملاح کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیسے اس تکلیف کی وضاحت پیش کرے جو ان تین دنوں اور تین راتوں میں اس نے جھیلی تھی۔ وہ تین خوفناک اور اذیت بھرے دن، جب زندگی کی ہر امید مر چکی تھی۔۔۔
جب خوف اس کے دل پر کسی عفریت کی طرح اپنے پنجے گاڑھ کر بیٹھ گیا تھا۔۔۔
اسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ یہاں سے کیسے نکلے گا؟ اور نکلے گا بھی کہ نہیں؟۔۔۔
وہ اپنے بیوی بچوں کو دوبارہ دیکھ پائے گا یا نہیں؟۔۔۔
سوالوں کے زہریلے ناگ پھن پھیلائے اسے ڈستے تھے اور وہ دہشت سے نیلا پڑ جاتا تھا۔
آپ بھی حیران ہورہے ہوں گے کہ وہ کیوں اتنا خوف زدہ تھا؟ کیوں زندگی سے مایوس ہو رہا تھا؟ آخر تھا کہاں وہ؟۔۔۔
کہاں؟۔۔۔۔۔
چلیے گھڑی کی سوئیوں کو الٹا گھما کر چلتے ہیں 2 اپریل 2016 کی اس صبح میں، جہاں اسپین کے ایک چھوٹے سے گاؤں Puerto Real کے ایک گھر میں زندگی پوری رعنائی سے ہنستی اور ہمکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
”لوگی، ناشتہ تیار ہو چکا ہے۔ جلدی سے آجاؤ “۔ کچن میں کھڑی پینی لوپ نے جلدی جلدی ہاتھ چلاتے ہوئے آواز دی تو ڈھلتی عمر کا ایک شخص مسکراتا ہوا اندر داخل ہوا۔
لوگی مارکیز گو کہ اپنی عمر کی 56 بہاریں دیکھ چکا تھا، مگر ابھی بھی وہ صحت مند تھا اور اس کا جسم نئی نسل کے جوانوں سے زیادہ طاقتور اور مضبوط دکھائی دیتا تھا۔
Logi Marquise |
کچن میں آتے ساتھ ہی اس نے برتن نکالنے شروع کر دیے۔ پینی لوپ اگرچہ پہلے کی طرح جوان نہیں رہی تھی مگر لوگی کے لیے تو آج بھی وہی سب کچھ تھی۔ اس کی محبوبہ، بیوی، اور اس کے بچوں کی ماں۔۔۔
اس کی مکمل دنیا پینی لوپ اور اس گھر کے گرد ہی گھومتی تھی جہاں اس کے بیوی اور بچوں کی کھلکھلاہٹیں گونجتی تھیں۔ ویسے تو اس کو کام سے کم ہی بریک ملا کرتی تھی مگر پھر بھی جب وہ گھر پر ہوتا تو گھر سنبھالنے میں پینی لوپ کی مدد کرنے کی بساط بھر کوشش ضرور کیا کرتا تھا۔ ابھی بھی وہ کھانا میز پر لگانے جارہی تھی تو لوگی نے برتن سنبھال لیے۔ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھتے ہی بچے بھی دوڑتے ہوئے آگئے۔ ناشتہ بڑے ہی خوش گوار ماحول میں کیا گیا۔ لوگی نے نوٹ کیا کہ پینی لوپ نے بہت کم کھایا ہے۔ اور وہ کچھ بے چین سی دکھائی دے رہی تھی۔
بچے انہیں گڈ بائی کہتے ہوئے اسکول روانہ ہو گئے تو اسے بات کرنے کا موقع مل گیا۔
” کیا بات ہے پی؟ آج تم نے ناشتہ نہیں کیا ٹھیک سے، تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟“۔
لوگی کی فکرمند آواز سن کر پینی لوپ نے کچھ پریشانی سے اسے دیکھا۔ ” پتا نہیں، آج صبح سے دل بہت گھبرا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کچھ برا ہونے والا ہے“۔
لوگی ہنس پڑا۔
اف یہ عورتوں کے وہم!
اس نے پیار سے اس کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے ہوئے کہا۔ ” کچھ نہیں ہوگا ڈیئر، پریشان مت ہو۔ یوں ہی وہم ہو رہا ہے تمہیں“۔ اسے تسلی دے کر لوگی نے اپنی جیکٹ اٹھا کر پہن لی۔ ”اچھا اب میں چلتا ہوں، دوست انتظار کر رہے ہوں گے“۔
پینی لوپ خاموشی سے اسے جاتے دیکھنے لگی۔ نہ جانے کیوں لیکن۔۔۔ دل تھا کہ دھک دھک کیے جارہا تھا۔ کاش آج وہ لوگی کو جانے سے روک پائے! اس نے بڑی حسرت سے سوچا۔ ایسا لگتا تھا جیسے کچھ برا ہونے والا ہے، لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی۔
لوگی مارکیز کو سمندر سے عشق تھا۔ اسی لیے اس نے ماہی گیری کا پیشہ اختیار کیا تھا، وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت سمندر میں گزارنا چاہتا تھا۔ اس کا زیادہ تر وقت مچھلیاں پکڑنے میں گزرتا تھا، آج بھی وہ ناشتہ کرتے ہی ساحل پر لنگر انداز لانچ کی طرف روانہ ہوگیا جہاں پر اس کے دوست اور شریکِ کار اس کے منتظر تھے۔
”بہت دیر کر دی لوگی، پورے پندرہ منٹ لیٹ ہو تم“ فرانسس نے شکایت کی۔ وہ وقت کا پابند تھا، اور دوسروں سے بھی یہ پابندی کروانے کی خواہش رکھتا تھا۔
”سوری دوستو، دیر سے آنے کے لیے معذرت خواہ ہوں “۔ لوگی نے اپنے مخصوص مسکراتے انداز میں کہا تو ان کی پیشانیوں کے بل غائب ہو گئے۔ فرانسس نے لانچ اسٹارٹ کی تو سمندر کے خاموش پانی میں اس کا انجن گھرگھراتے ہوئے انہیں آگے لے جانے لگا۔
مچھلیوں کی تلاش میں وہ سمندر میں کافی آگے جا چکے تھے، ایک جگہ رک کر انہوں نے جال پھینک دیا اور انتظار کرنے لگے۔ لانچ پر ہر کوئی اپنے اپنے ذمے لگا ہوا کام کرنے میں مصروف تھا کہ اچانک ہی ہوا میں اضافہ ہونے لگا۔ وہ سب چونک گئے۔
” فرانسس، مجھے لگتا ہے طوفان آنے والا ہے، ہمیں جلد از جلد کنارے پر پہنچ جانا چاہیے “۔ مارکوس نے تا حد نظر سمندر کی وسعت کو فکرمندی سے دیکھا۔
”مارکوس ٹھیک کہہ رہا ہے، ہمیں اب چلنا چاہیے“. لوگی نے اثبات میں سر ہلایا۔
فرانسس شش و پنج میں تھا۔ جال میں پھنسنے والی مچھلیاں مطلوبہ تعداد سے کم تھیں۔ لیکن سمندر کے تیور بڑی تیزی سے بگڑ رہے تھے، اگر وہ یہاں رکے رہتے تو طوفان میں پھنس کر رہ جاتے۔ آخر کار اس نے واپس لوٹنے کا فیصلہ کرلیا، انہوں نے جال سمیٹا، مچھلیاں ڈرم میں ڈالیں اور لانچ کا رخ ساحل کی طرف موڑ دیا۔
لیکن دیر ہو گئی تھی۔۔
طوفان کی رفتار ان سے کہیں زیادہ تیز تھی۔ سمندر کی بھپری ہوئی لہروں نے لانچ کے گرد وحشیانہ رقص شروع کر دیا تھا اور لانچ کسی حقیر سے تنکے کی طرح پانی پر ڈول رہی تھی۔
گرنے سے بچنے کے لیے عرشے پر موجود سبھی افراد نے کسی نہ کسی چیز کو پکڑا ہوا تھا۔ فرانسس بپھری ہوئی موجوں سے لانچ کو نکالنے کے لیے بھرپور کوشش کر رہا تھا مگر لہریں سانپ کی طرح بل کھاتے ہوئے آتیں اور بار بار لانچ کو گھما دیتیں۔ وہ پریشان ہو گیا، اسی وقت پیٹر چیخا۔ ” اوہ خدایا، وہیل“۔ وہ انگلی سے ایک طرف اشارہ کر رہا تھا۔
پریشان ملاحوں نے حواس باختہ ہو کر ادھر دیکھا تو ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ ایک بہت بڑی وہیل تھی، پانی سے باہر اچھلنے کے بعد دوبارہ وہ گری تو بہت سا پانی اوپر اچھلا۔
فرانسس پاگلوں کی طرح لانچ کو موڑ کر دور لیجانے کی کوشش کرنے لگا۔ اس طوفان میں وہیل کا اتنا قریب آنا برا تھا، بلکہ بہت ہی برا۔۔۔ اس کا ایک دھکا اس چھوٹی سی لانچ کو الٹ دینے کے لیے کافی تھا۔
لہروں پر اچھلتی لانچ زوردار جھٹکے کھا رہی تھی، لوگی نے عرشے پر لگے جنگلے کو مضبوطی سے تھام لیا۔ لیکن بھیگے ہوئے جنگلے پر ہاتھ پھسل رہا تھا، گرفت مضبوط نہیں ہو پا رہی تھی۔
مارکوس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا، وہیل اب نظر نہیں آ رہی تھی، شاید وہ دور چلی گئی تھی۔
جھٹکوں سے ڈرم الٹ گیا تھا اور مچھلیاں عرشے پر گر گئی تھیں، اگر انہیں سنبھال کر ڈرم میں بند نہ کیا جاتا تو اچھلتی اور جھولتی لانچ سے وہ سب سمندر برد بھی ہو سکتی تھیں، لوگی نے جنگلا چھوڑ کر انہیں سمیٹنے کے لیے جانے کی کوشش کی، بس وہ ایک لمحہ جب اس کے ہاتھ جنگلے کی گرفت سے آزاد ہوئے۔ وہ ایک لمحہ ایک بھیانک غلطی بن گیا۔
اسی وقت پانی کےایک تیز رفتار ریلا ٹکرانے سے لانچ بری طرح ڈگمگائی۔
لوگی کی چیخ سن کر پیٹر اور مارکوس نے گھبرا کر اس کی طرف دیکھا، وہ انہیں سمندر میں گرتے ہوئے نظر آیا۔
”لوگی“۔ وہ دونوں چلاتے ہوئے لانچ کے جنگلے پر کھڑے ہو کر سمندر میں دیکھنے لگے۔
لوگی سمندر کی بپھری ہوئی لہروں کی بیچ ہاتھ پیر مارتے ہوئے لانچ کی طرف تیرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ ایک اچھا تیراک تھا مگر اس طوفان سے جیتنا آسان نہیں تھا۔
مارکوس نے جلدی سے رسی پھینکی۔ ”اسے پکڑو، ہم تمہیں اوپر کھینچتے ہیں“.
رسی قریب ہی تھی، لوگی کی آنکھوں میں امید کی روشنی چمکی۔ وہ تیزی سے تیر کر رسی کو پکڑنے کی کوشش کرنے لگا۔
”بس تھوڑی سی دور ہے“۔ اس نے تیزی سے ہاتھ پاؤں سے پانی کو پیچھے دھکیلتے ہوئے اس تک پہنچنے کی کوشش کی۔
لیکن یہ تھوڑی سی دوری بہت زیادہ ہو گئی۔
مارکوس اور پیٹر پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کے عقب میں دیکھ رہے تھے جہاں Blue وہیل کا بڑا سا ہیولہ نمودار ہو رہا تھا۔
”وہیل“۔ پیٹر نے پھیپھڑوں کی پوری طاقت سے چلا کر لوگی کو خبردار کیا۔ گھبرائے ہوئے لوگی نے پیچھے گردن موڑ کر دیکھا۔ اسے وہیل کا بڑا سا کھلا جبڑا نظر آیا۔
تب ہی کسی بے پناہ طاقت نے اسے نیچے کھینچا اور۔۔۔۔۔ ہر چیز اندھیرے میں ڈوب گئی۔
۔۔۔۔
فرانسس، مارکوس اور پیٹر بے یقینی سے اس جگہ کو گھور رہے تھے جہاں کچھ دیر پہلے 56 سالہ لوگی تیر رہا تھا۔ اب وہاں blue wahel کا بھاری بھرکم وجود دکھائی دے رہا تھا۔ پانی میں ہلچل مچ گئی تھی، شاید لوگی بد حواسی میں کسی اور طرف تیرنے لگا تھا،
شاید وہ بچ گیا تھا، شاید“.
اچانک ہی فرانسس چونکا۔ ہوش ٹھکانے لاتے ہوئے اس نے چیخ کر مارکوس اور پیٹر کو ہوشیار رہنے کے لیے پکارا۔ وہ لوگی کی کوئی مدد نہیں کر سکتے تھے۔
وہ دونوں بھی خود کو سنبھالتے ہوئے جنگلے سے پیچھے ہٹ گئے۔
وہیل دوبارہ غائب ہوچکی تھی، اور اس سے پہلے کہ وہ سب بھی ایک ایک کر کے اس کا یا سمندری طوفان کا نوالہ بنتے، انہیں یہاں سے دور ہٹنا تھا۔
فرانسس کی سر توڑ کوششوں کے نتیجے میں لانچ طوفانی علاقے سے دور ہٹ رہی تھی، لانچ کے سنبھلتے ہی اس نے اس کا رخ کنارے کی طرف کر دیا۔
پیٹر نے جھپٹ کر فرانسس کا گریبان پکڑ لیا۔ ” ہم اسے چھوڑ کر نہیں جا سکتے فرانسس، وہ ہمارا دوست ہے، دوست“.
مارکوس کی خوں رنگ آنکھوں میں بھی یہی پیغام جھلک رہا تھا۔
فرانسس نے ایک جھٹکے سے اپنے گریبان چھڑایا۔ ”پاگل مت بنو، اس طوفان میں ہم اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔ اور تمہارا خیال ہے کہ وہ اب بھی وہیں پر تمہارا انتظار کر رہا ہوگا؟ کہیں نظر آ رہا ہے وہ تم کو؟ تم بچے نہیں ہو پیٹر، ایک عرصہ سمندر میں گزارا ہے تم نے۔ کیا کر سکتے ہو تم اس کے لیے اب ؟ بولو کر سکتے ہو کچھ؟“.
پیٹر کا سر جھک گیا، وہ نڈھال سا نیچے بیٹھ گیا۔ فرانسس ٹھیک کہہ رہا تھا۔
وہیل کی موجودگی، یہ غضب ناک طوفان۔۔ واقعی وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے،
اور کون جانے؟ لوگی زندہ بھی تھا یا نہیں؟۔۔
وہ ہاتھوں میں چہرہ چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، اور وہ اکیلا نہیں تھا، فرانسس اور مارکوس بھی اپنے دیرینہ دوست کے لیے آنسو بہا رہے تھے۔
۔۔۔۔۔
جاری ہے
0 Comments