The Second Hunt of Man Eater

ردر پریاگ کا آدم خور (دوسرا حصہ)

www.darkcasefiles.pro


 




اس عورت کی موت کے چند دن بعد ہی، قریب کے ایک گاؤں میں ایک ایسا واقعہ ہوا کہ سب لرز کر رہ گئے۔ رامو نے بھی جب عورت کی دردناک موت کے بارے میں سنا تو وہ بھی تھرا کر رہ گیا۔ ” چلو مان لیا کہ جنگل تو اس کا گھر تھا، سو وہاں ایسا ہونا ناممکن نہیں تھا۔ لیکن بستی میں گھس کر یہ سب کرنا، ہے بھگوان، کتنی خوف ناک بات ہے یہ۔۔۔ میری رکھشا کرنا“۔ بارہ سالہ رامو نے دل ہی دل میں پر ارتھنا کرتے ہوئے کہا۔ اس کا اس دنیا میں کوئی بھی نہیں تھا۔ وہ تو بھلا ہو موہن داس کا، کہ اچھوت ہونے کے باوجود اس نے رامو کو اپنے گھر میں رکھا ہوا تھا۔ لیکن موہن داس بھی یہ سب مفت میں نہیں کر رہا تھا، سر چھپانے کی جگہ اور دو وقت کی روٹی کے بدلے رامو بھی تو سارا سارا دن اس کی بکریوں کا ریوڑ چَراتا تھا۔ یہی نہیں، ایندھن کے لیے لکڑیاں لانا، مویشیوں کی دیکھ بھال اور نہ جانے کتنے ایسے چھوٹے بڑے کام تھے جو پہلے موہن کو خود کرنے پڑتے تھے۔

لیکن جب سے اس نے رامو پر "ترس" کھا کر اسے اپنے پاس رکھا تھا، اس کی زندگی سکھی ہو گئی تھی۔

دن بھر اپنے احسان کا راگ الاپتے الاپتے وہ اس چھوٹے سے بچے سے اتنا کام لیتا تھا کہ رامو کو اپنے جسم کی ہڈیاں تک ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتیں۔ اگر اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اب تک یہاں سے بھاگ کر کہیں اور جا چکا ہوتا۔ اس نے بھی کئی بار اس جگہ پر دو حرف بھیج کر یہاں سے نکل بھاگنے کا سوچا تھا۔

مگر وہ جاتا بھی کہاں؟ ماں باپ مر چکے تھے۔ کوئی قریبی رشتے دار تھا نہیں، اور دور کے رشتوں نے ماں باپ کے مرتے ہی طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لی تھیں۔

اس کے لیے تو یہی غنیمت تھا کہ اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے موہن داس نے اسے اچھوت ہونے کے باوجود اپنے گھر میں جگہ دی ہوئی تھی۔

موہن داس کی " ہمدردی" اپنی جگہ، لیکن اب وہ اچھوت بچے کو اپنے پوتر گھر کے اندر تو نہیں ٹھہرا سکتا تھا نا، اس لیے اس نے اسے بکریوں کی کوٹھڑی میں ایک کونا دے دیا تھا جہاں وہ سمٹ سمٹا کر سوجاتا تھا، دو وقت کی روٹی بھی مل جاتی تھی۔ اس لیے وہ کہیں اور جانے کی ہمت ہی نہ کر سکا۔

یہ اور بات تھی کہ رات کو سوتے میں اچانک ہی کوئی بکری اپنے کھروں سے اس کی تواضع کردیتی تھی، یا پھر کوئی میمنا اس کے پیٹ کو نرم بستر سمجھ کر اس پر لیٹ جاتا تھا۔ بہر حال، رامو نے جلد ہی اس کا حل بھی نکال لیا۔ اس نے اپنی سونے کی جگہ کے گرد کانٹے دار جھاڑیوں کی شاخیں رکھ دی تھیں، جس کی وجہ سے بکریاں اس تک نہیں پہنچ پاتی تھیں اور وہ سکون سے سوجاتا تھا۔ اس کی چھوٹی سی زندگی میں مسئلے تو بہت تھے، مگر وہ پھر بھی خوش تھا۔

لیکن اب سب کی طرح اسے بھی خوف ستا رہا تھا۔ ” اگر آدم خور یہاں آگیا تو۔۔۔؟ وہ کافی دیر تک سوچتا رہا مگر دن بھر کی تھکاوٹ کے بعد وہ زیادہ دیر تک سوچ بچار نہ کرسکا اور گہری نیند نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔

۔۔۔۔۔۔


اس بار بھی رات ہوتے ہی وہ اپنے علاقے سے نکل کر انسانوں کی رہائش گاہوں کے قریب آ چکا تھا۔ آج اس کے اندر ذرا بھی صبر کرنے کی ہمت نہیں تھی، وہ بھوک سے بے تاب ہو رہا تھا۔ ہلکی ہلکی آواز میں غراتا ہوا وہ گاؤں کی طرف چل پڑا، جہاں سب دروازے کھڑکیاں بند کیے گہری نیند سو رہے تھے۔ اسے غصہ آنے لگا۔ چالاک آدم زاد، کیا سمجھتے تھے وہ؟ دروازے کھڑکیاں بند کر کے اس سے بچ جائیں گے؟ ہرگز نہیں۔۔۔

اس نے ادھر ادھر گھوم پھر کر دیکھا اور پھر ایک گھر کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ دو چار زبردست ٹکروں کے بعد دروازہ ایک جھٹکے سے کھل گیا۔ اندر موجود بکریاں اسے دیکھتے ہی خوف سے سکڑنے سمٹنے لگیں۔ اس نے نتھنے سکیڑ کر کچھ سونگھا اور اس کی توجہ اس کونے پر مرکوز ہو گئی جہاں پر کچھ خار دار جھاڑیاں باڑھ کے انداز سے رکھ دی گئی تھیں، خوف زدہ بکریوں نے تیزی سے سمٹ کر اسے راستہ دیا اور وہ بے پروائی سے چلتا ہوا کونے میں موجود لڑکے کے سر پر پہنچ گیا۔

رامو، بے سہارا اچھوت لڑکا سپنوں کی وادی میں کھویا ہوا تھا۔۔۔

اس نے لپک کر ایک غراہٹ کے ساتھ اسے گردن سے دبوچ لیا۔

اس کے تیز دھار دانتوں نے رامو کے سپنوں کو ہمیشہ کے لیے گہرے اندھیرے میں ڈبو دیا۔

رامو کی لاش اٹھا کر وہ فاتحانہ انداز میں گھر سے نکلا اور اپنے مخصوص ٹھکانے کی طرف روانہ ہوگیا۔ اس کے نقشِ پا پر رامو کے بہتے خون کی بوندوں نے صبح موہن داس کو گزری رات کا سارا فسانہ سنا دیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔

خوف و دہشت سے بھری یہ داستان ابھی جاری ہے۔

باقی آئندہ

Post a Comment

0 Comments