Spanish sailor Logi Marquise survival story part 2 in Urdu

مچھلی کے پیٹ سے واپسی  (حصہ دوم)

www.darkcasefiles.com


جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا، پینی لوپ کی پریشانی بڑھتی ہی جارہی تھی۔ اپنی اس کیفیت کو وہ کوئی نام نہیں دے پارہی تھی، مگر اندر کہیں دل کے کسی کونے میں کوئی نا معلوم خوف اسے سہما رہا تھا۔

اس کہانی کا پہلا حصہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

اچانک ہی دروازے کی بیل بجی، وہ بری طرح چونک گئی۔

”جیسز“

اس نے دل ہی دل میں یسوع کو یاد کرتے ہوئے دروازہ کھولا۔ سامنے پیٹر کھڑا تھا، زرد چہرے کے ساتھ بے حد دکھی اور حواس باختہ سا۔۔

وہ پیٹر کو جانتی تھی، اور یہ بھی جانتی تھی کہ وہ لوگی کے ساتھ ہی لانچ پر ہوتا تھا۔ ”کیا آج وہ لوگی اور دوسرے دوستوں کے ساتھ سمندر نہیں گیا؟“۔ اس کو دیکھتے ہی ایک پریشان سوچ نے اس کے ذہن کو اپنے پنجے میں جکڑ لیا۔

” ہیلو پیٹر، تم اس وقت یہاں؟ اور اتنے پریشان کیوں ہو سب خیر تو ہے ناں؟“۔

www.darkcasefiles.pro


پیٹر نے نفی میں سر ہلایا، اس کی آنکھوں سے دو آنسو ٹوٹ کر فرش پر بکھر گئے۔ اس نے کچھ بولنے کی کوشش کی مگر آواز نے ساتھ نہ دیا۔ وہ دیوار سے ٹیک لگا کر نیچے بیٹھ گیا اور سسکیاں لینے لگا۔

پینی لوپ کا دل ڈوب کر ابھرا، پیٹر کا رویہ اسے ڈرا رہا تھا۔

” پیٹر پلیز، بتاؤ کیا ہوا ہے؟ تم رو کیوں رہے ہو اور لوگی، فرانسس اور مارکوس کہاں ہیں؟ وہ سب ٹھیک تو ہیں ناں؟ کچھ تو بولو پیٹر“۔ اس کی اپنی آواز بھی بھرا گئی۔

پیٹر نے بڑی مشکل سے خود پر قابو پایا اور آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ ” وہ ٹھیک ہیں مگر لوگی، لوگی لاپتہ ہوگیا ہے“۔

پینی لوپ کے دل کو کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا۔ ” لوگی لاپتہ ہوگیا ہے؟ کیا مطلب ہے تمہارا؟ وہ صبح تو میرے سامنے نکلا تھا تم لوگوں کے ساتھ جانے کے لیے“۔

پیٹر نے دکھی لہجے میں کہا۔ ” ہم لوگ مچھلیاں پکڑنے نکلے تھے، اچانک ہی سمندر میں طوفان آگیا۔ اسی طوفان میں لوگی لانچ سے گر گیا تھا۔ ہم نے اسے ڈھونڈنے اور بچانے کی بہت کوشش کی مگر سب بے فائدہ رہا۔ اب ریسکیو ٹیمیں اسے تلاش کر رہی ہیں، ہمیں جیسز سے اچھی امید رکھنی چاہیے “۔

پینی لوپ کچھ دیر تک اسے دیکھتی رہی پھر اس نے تیزی سے باہر کا رخ کیا، وہ چرچ کی طرف جارہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔

اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ہوا کیا ہے؟ وہ کہاں ہے؟ اور اسے اتنی سخت سردی کیوں لگ رہی ہے؟ اور اتنی شدید بدبو کس چیز کی ہے؟

اس نے آنکھیں کھول کر دیکھنے کی کوشش کی، ہر طرف گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا، اس اندھیرے میں اسے کوئی چیز چمکتی دکھائی دی، تھوڑی دیر غور کرنے کے بعد اسے اندازہ ہوا کہ وہ اس کی رسٹ واچ تھی۔ یہ واچ بہترین کوالٹی کی واٹر پروف واچ تھی، جس میں ایک چھوٹی سی لائٹ بھی لگی ہوئی تھی، اس نے ٹٹول کر وہ لائٹ جلا دی۔۔۔ اور اس محدود روشنی میں اسے جو کچھ نظر آیا، وہ اس کے رونگٹے کھڑے کردینے کے لیے کافی تھا۔

۔۔۔۔۔۔

فادر کارلو اس بے طرح روتی ہوئی عورت کو ترحم سے دیکھ رہے تھے۔

” فادر، پلیز میرے شوہر کے لیے دعا کریں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ زندہ ہے“۔ پینی لوپ نے التجا کی۔

آج اسے سمندر میں غائب ہوئے پورے چوبیس گھنٹے گزر چکے تھے، ریسکیو ٹیمیں اسے زندہ یا مردہ تلاش کرنے میں ناکام ہوچکی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ لوگی شاید شارک یا دوسری مچھلیوں کی خوراک بن چکا ہے، یا پھر پانی کے تیز بہاؤ نے اس کے جسم کو کہیں اور کسی دور دراز جگہ پہنچا دیا ہے، اسی لیے وہ اس کو تلاش نہیں کرپائے۔ لیکن پینی لوپ نے ابھی تک امید کا دامن نہیں چھوڑا تھا، وہ اور اس کے بچے مسلسل چرچ جا کر دعائیں مانگتے رہتے تھے اور پینی لوپ چرچ میں آنے والے لوگوں اور پادری سے بھی دعا کرنے کی درخواست کرتی تھی۔

” میں ضرور دعا کروں گا میری بچی، مجھے یقین ہے کہ جیسز ہمیں مایوس نہیں کرے گا۔ کیا تم نے بائبل میں جوناح (Jonah) * کا واقعہ نہیں پڑھا؟ وہ بھی تو سمندر میں گم ہوگیا تھا۔ مگر گاڈ نے اسے مچھلی کے پیٹ میں بھی محفوظ رکھا۔ مجھے یقین ہے لوگی بھی ضرور واپس آئے گا“۔

ان کی بات سن کر پینی لوپ کے دل کو کسی قدر قرار ضرور آیا تھا۔ وہ ایک بار پھر مقدس مریم کی تصویر کی آگے کھڑے ہو کر لوگی کی زندہ سلامت واپسی کے لیے برستی آنکھوں سے دعائیں کرنے لگی۔

۔۔۔۔۔

بھوک سے اس کی آنتیں کٹ رہی تھیں، گھڑی سے ہی اسے وقت کا پتہ چل رہا تھا۔ ورنہ تو اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اسے زندہ دفنا دیا گیا ہو۔

لیکن اس گھڑی کی دھیرے دھیرے آگے بڑھتی سوئیاں اسے اس بات کا احساس دلاتی تھیں کہ وہ زندہ تھا۔

لوگی مارکیز زندہ تھا۔ پہلے اسے سمجھ نہیں آیا تھا مگر اب وہ جان چکا تھا کہ وہ وہیل کے پیٹ میں تھا۔

اس وہیل کے پیٹ جو اچانک ہی اس کے پیچھے نمودار ہوئی تھی اور پل بھر میں اسے زندہ سلامت نگل گئی تھی۔ اس کے گرد بہت سی مچھلیوں کے گلے سڑے وجود تھے جو وہیل نے شاید اس سے پہلے نگلے تھے۔ اور اب اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ بھی وہیل کے کھانے سے ہی اپنا حصہ نکالے۔ اس نے گھڑی کی چھوٹی سی بتی جلائی، ایک قدرے چھوٹی مچھلی جو کسی قدر تازہ دِکھ رہی تھی، اس نے اسے پکڑ لیا اور دانتوں سے اسے چھیلنے لگا۔ مچھلی کا کچا گوشت کھاتے ہی اسے ابکائی آئی تھی، اس دن وہ مزید کچھ نہیں کھا سکا تھا۔ لیکن اگلی بار جب اس نے مچھلی کھائی تو اس کا معدہ اس کا تھوڑا بہت عادی ہونے لگا۔

ہر صورت میں زندہ رہنے کی فطری انسانی خواہش نے اسے زندگی کا دامن تھامے رکھنے کے لیے مجبور کر دیا تھا۔

گھڑی کی سوئیاں آگے بڑھتی رہیں، جب وہیل پانی پیتی تھی تو وہ سردی سے بری طرح ٹھٹھرنے لگتا تھا۔ ٹھنڈک ناقابلِ برداشت بن جاتی تھی، اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آگے کیا ہوگا؟ وہ کیا کرے؟ کیسے اس کے اندر سے نکلے؟۔۔۔۔

اور آج تیسرا دن تھا، اس کا دماغ ماؤف ہونے لگا تھا، شدید سردی، بدترین غذا، تنہائی، بے تحاشا بدبو اور خوف کی وجہ سے اسے لگتا تھا کہ جلد ہی یا تو وہ پاگل ہو جائے گا، یا مرجائے گا۔

اس طرح آخر وہ کب تک خود کو زندہ رکھ سکتا تھا؟۔

وہ ہار مان چکا تھا، مرنے کے لیے تیار ہوچکا تھا۔

اچانک ہی اس نے دباؤ محسوس کیا، اسے ایسا لگا جیسے کوئی بے پناہ زور اسے باہر دھکیلے جارہا ہو۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سوچتا، اچانک ہی اسے محسوس ہوا کہ وہ پانی کی پر شور آواز کے ساتھ ہوا میں بلند ہوچکا ہے۔ پھر اس نے اپنے آپ کو سمندر کے پانی میں غوطے کھاتے ہوئے پایا۔

” کیا میں اس جہنم سے نکل گیا ہوں؟“۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا۔ لیکن یہ حقیقت تھی، وہیل نے قے کی تھی، یا پانی کی وہ مخصوص پھوار پھینکی تھی جس کے لیے وہ مشہور ہے، بہرحال جو بھی تھا اس کے ساتھ اس نے لوگی کو بھی اپنے معدے سے نکال پھینکا تھا۔

لوگی نے آزادی کا یقین ہوتے ہی ہاتھ پاؤں چلانے شروع کردیے۔ وہ تیرتے ہوئے جلد از جلد دور چلا جانا چاہتا تھا۔ اس کی خوشی کی کوئی حد نہ رہی جب تھوڑی دور اسے زمین نظر آئی، اب کم سے کم وہ اس منحوس سمندر سے تو چھٹکارہ حاصل کر ہی سکتا تھا جس نے اسے وہیل کے پیٹ میں جا پٹخا تھا۔

اس کے اندر طاقت نہیں بچی تھی، مگر پھر بھی ہمت کر کے اس نے تیزی سے تیرنا شروع کردیا۔ جلد ہی اس نے سخت زمین کو محسوس کرلیا۔ پہلی بار اسے اس کی سختی پر پیار آیا۔ ساحل پر پہنچ کر وہ بے سدھ ہو کر لیٹ گیا۔ اس کی طاقت جواب دے چکی تھی، بے ہوش ہونے سے پہلے اس نے کچھ لوگوں کو دوڑ کر اپنی طرف آتے ہوئے ضرور دیکھ لیا تھا۔

۔۔۔۔۔

دنیا بھر کے اخباروں میں ہلچل مچ گئی تھی، وہیل کے پیٹ میں تین دن گزارنے کے بعد زندہ سلامت واپس آنے والے لوگی مارکیز کے گھر پر اخباری نمائندوں کا ہجوم اکٹھا ہوگیا تھا۔

پینی لوپ کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو برس رہے تھے، لوگی کے بچے بھی باپ کو واپس پا کر بہت خوش تھے۔

اخباری نمائندہ پوچھ رہا تھا۔

” وہیل کے پیٹ میں آپ پر کیا گزری؟“۔

” ہر چیز گہری سیاہی میں ڈوبی ہوئی تھی، وہاں بے تحاشا سردی سے میں ٹھٹھر رہا تھا۔ واحد چیز جس نے مجھے زندہ رکھا وہ مچھلیوں کا کچا گوشت اور میری واٹر پروف گھڑی سے نکلتی روشنی تھی جو اس وقت میرے پاس وقت سے جڑے رہنے کا واحد ذریعہ تھی۔ اور بدبو، وہ ناقابلِ برداشت تھی، میرا خیال ہے کہ اگر میں اگلے کئی دن نہاتا رہوں تب بھی اس بدبو کو دور کرنے میں مجھے کافی وقت لگے گا“.

” یہ ایک معجزہ ہے، ایک حقیقی معجزہ“ پینی لوپ نے رپورٹر کو بتایا۔ ” میں نے دعا کی اور بے انتہا دعا کی، میں نے اپنا یقین نہیں ٹوٹنے دیا اور یسوع اور مقدس مریم نے مجھے میرا شوہر واپس کردیا“۔

پینی لوپ کا دل خوشی سے سرشار ہوگیا تھا، اس کا یقین جیت گیا تھا۔

*  حضرت یونس علیہ السلام جو چالیس دن تک مچھلی کے  پیٹ میں رہنے کے بعد زندہ نکلے۔

حوالہ جات:

Deccan Chronicles

India.com

Post a Comment

0 Comments