ردر پریاگ کا آدم خور
دنیا میں بہت سی عجیب، خوفناک اور ناقابلِ بیان چیزیں ہوتی ہیں، ہر روز ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں جن کے بارے میں جان کر حیرانی ہوتی ہے۔
لیکن۔۔ ایک انسان کو سب سے زیادہ جو چیز اپنی طرف کھینچتی ہے، وہ ہیں ایسے واقعات جن میں تجسس کا مادہ ہو، شاہد یہی وجہ ہے کہ انسانہ ذہن کو سب سے زیادہ خوفناک اور پر تجسس چیز کسی آدم خور کی کہانی لگتی ہے۔
ہمیشہ کی طرح آج بھی ماضی کی لکھی گئی سال خوردہ کتابوں کے اوراق سے ایک سچا قصہ الفاظ کی چادر میں لپیٹ کر آپ کے لیے لکھ کر لے آئی ہوں۔
تو چلیں پھر، وقت کی گرد میں اٹی کتابوں کے اوراق پلٹ کر قدیم ہندوستان میں چلتے ہیں، جہاں رات اپنے دامن میں ایک خوفناک کہانی چھپائے ہمیں تجسس میں مبتلا کرنے کو تیار ہے،
اب اس گہرے سناٹے میں، اندھیری رات سے وہ کہانی سنتے ہیں، مگر بالکل خاموشی سے بیٹھ کر سنیں۔۔۔ کہ بولنے سے رات کا فسوں زائل ہوجاتا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جو اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے، کہیں کہیں سے جھینگروں کے آوازیں سناٹے کا سینہ چیرتے ہوئے باہر آتی ہیں، اور گھروں میں دبکے ہوئے انسانوں کو للکارتی ہیں۔
" باہر آؤ،دیکھو رات کتنی حسین اور پر سکون ہے، آؤ، تم بھی ہماری طرح فطرت کے حسن کو دیکھو"۔
لیکن انسانوں میں سے کوئی بھی اس وقت باہر آنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا، کیونکہ رات کتنی ہی حسین ہو، زندگی جیسی قیمتی تو بہرحال نہیں ہو سکتی۔
وہ جانتے ہیں کہ گھروں سے باہر موت ان کے لیے گھات لگائے انتظار کر رہی ہے، اور وہ مرنا نہیں چاہتے تھے، اسی لیے سرِ شام ہی گھروں کے دروازے بند کردیے جاتے، لالٹینیں بجھا دی جاتیں، اور ہر شخص اپنے اپنے بستر میں دبک جاتا ۔
اس وقت بھی سارے گاؤں پر ہو کا عالم طاری تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے یہ کوئی گاؤں نہیں، بلکہ قبرستان ہو۔
اب ذرا رخ موڑ کر دور اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کرو تو۔۔۔ کافی دور دو سرخ انگاروں جیسی روشنیاں سی چمکتی دکھائی دیتی ہیں، یہ روشنیاں عجیب سی تھیں، دو متحرک سرخ انگاروں سی، جو دھیرے دھیرے قریب آتی گئیں۔ وہ روشنیاں گاؤں میں داخل ہونے کے بعد ایک گھر کے قریب آکر رک گئیں۔
دیہاتوں میں گھروں کی حفاظت کے لیے اکثر خاردار جھاڑیوں کی باڑ لگائی جاتی ہے، اوپر تلے کئی کانٹے دار جھاڑیاں کاٹ کر گھر کے چاروں طرف رکھ دی جاتی ہیں، 6 سے 7 فٹ ( اور کہیں کہیں 11 سے 12 فٹ) اونچی اس جنگلی جھاڑیوں سے بنائی گئی باڑھ کی چوڑائی 3 یا 5 فٹ تک تو ہوتی ہی تھی، جسے پھلانگنا بہت ہی مشکل ہوتا تھا۔ اس سے نہ صرف جنگلی جانوروں سے بلکہ چوروں سے بھی بچاؤ ہوجاتا تھا۔ (اب تو چور بھی کافی ترقی کر گئے ہیں، مگر پسماندہ دیہاتوں میں چوری ہونے سے روکنے کے لیے آج بھی یہی طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔)
اس باڑھ میں لمبے خوفناک کانٹوں والی جھاڑیاں استعمال کی جاتی تھیں، ان پر پیر رکھنا نا ممکن لگتا تھا، خاص طور پر اس کے لیے جو اس رات چوکنے انداز میں باڑھ کے باہر کھڑا تھا۔ اس کے پیروں کی نرم روئی جیسی جلد ان کانٹوں کی تکلیف برداشت کرنے کی متحمل نہیں تھی۔ اس لیے وہ باڑھ کے ارد گرد گھومتے ہوئے ایسی جگہ ڈھونڈ رہا تھا جہاں سے وہ ان کانٹوں کو ایک ہی جست میں پھلانگ سکے۔ اور یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ جلد ہی اسے ایک جگہ مل گئی، جسے اس نے ایک ہی جست میں پار کرلیا اور اندر آ گیا۔
بڑے سے صحن کو عبور کر کے وہ ایک کمرے کے قریب پہنچا، دروازہ بند تھا لیکن پہلو کی کھڑکی کھلی ہوئی تھی۔ بلکہ کھڑکی کہنے کی بجائے اسے بڑا سا طاقچہ کہنا مناسب ہوگا۔ کیونکہ کواڑ کے بغیر اس کھڑکی میں پیتل کی پانی سے بھری ایک گاگر رکھی رہتی تھی۔ یہ کھڑکی نما طاقچہ زمین سے کوئی چار فٹ اوپر تھا، لیکن اس کے لیے یہ اتنی سی بلندی کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔
پیتل کی گاگر سے پہلو بچاتے ہوئے وہ اس ہوشیاری سے اندر داخل ہوا کہ کھڑکی کے قریب سوئے ہوئے مرد کو اس کے آنے کی بھنک تک نہ پڑ سکی۔
نیچے اتر کر اس نے اپنی سرخ انگارہ آنکھیں اس پر جمادیں، لیکن پھر کچھ سوچ کر وہ مڑا، سامنے ہی ایک اور دروازہ تھا جو اس کمرے کو دوسرے کمرے سے ملاتا تھا۔ اس دروازے سے لالٹین کی مدھم سی روشنی اس کمرے تک آ رہی تھی۔ اس نے دروازے پر کھڑے ہو کر اندر نظر دوڑائی۔ فرش پر تین عورتیں بستر بچھائے سو رہی تھیں، دراصل درمیان میں سوئی ہوئی عورت ہی اس گھر کی مالکن تھی جو بیمار تھی، باقی دو اس کی رشتہ دار تھیں جو اس کی دیکھ بھال کرنے کے لیے اس کے پاس رک گئی تھیں۔ چند لمحے تک وہ خونخوار نظروں سے انہیں گھورتا رہا۔ پھر اس نے جھک کر درمیان والی عورت کو اٹھا لیا۔ گہری نیند سوئی اس بد قسمت عورت کو اپنی گردن پر تیز دھار چھریاں سی چلتی ہوئی محسوس ہوئیں، اس نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی، مگر موت کے اندھیروں نے اسے روشنی دیکھنے ہی نہ دی۔ پل بھر میں اس کا نرخرہ ادھڑ گیا تھا اور وہ ایک بھی آہ بھرے بنا ہمیشہ کے لیے چپ ہو گئی۔
وہ اسے دبوچے ہوئے احتیاط سے کھڑکی کی طرف بڑھا، اس کی کوشش تھی کہ وہ جس خاموشی سے آیا تھا۔۔۔۔اسی طرح چلا جائے کیونکہ بہر حال وہ انسانوں سے اب بھی ڈرتا تھا۔ بھلے ہی وہ انہیں کچا چبا جاتا تھا مگر اب بھی، اس کا ذہن اسے انسانوں سے محتاط رہنے کا حکم دیتا تھا۔ اس لیے وہ بڑی خاموشی سے جانا چاہتا تھا لیکن۔۔ عورت کا پیر پانی کی گاگر سے ٹکرایا اور وہ چھنچھناہٹ پیدا کرتی نیچے جا گری۔ زوردار آواز سے سبھی جاگ گئے۔ اس شور سے گھبرا کر اس نے عورت کو وہیں چھوڑا، جست لگا کر باہر نکلا اور اندھیرے میں غائب ہوگیا۔
کھڑکی کے نیچے عورت کی لاش کے گرد وہ سب ماتم کرنے لگے، جس کی گردن پر چھریوں جیسے خوفناک دانتوں کے نشان تھے۔
جنگل میں داخل ہونے سے پہلے اس نے خون بار نگاہوں سے اس گاؤں کو گھورا تھا۔ جیسے کہہ رہا ہو:
” ابھی تو ابتدا ہے، تم میں سے بہت سوں کی سانسوں کی گنتی پوری ہوچکی ہے“.
(جاری ہے)
اس کہانی کا دوسرا حصہ یہاں پڑھیں۔
نوٹ: قارئین مزید تحاریر پڑھنے کے لیے ویب سائیٹ وزٹ کرتے رہیں۔
0 Comments