آدم خور کی ڈائری
تیسرا اور آخری حصہ
اس کی عمر تیس سے چالیس کے درمیان ہوگی، گہرا سانولا رنگ، سرد اور اندر کو دھنسی آنکھیں، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں۔ وہ ایک دبلا پتلا سا شخص تھا جس کے چہرے کے تاثرات کسی قدر کرخت اور عجیب سے تھے۔
”کیا نام ہے تمہارا؟“۔ ترپاٹھی نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
ہمارا نام رام نرنجن ہے مہاراج، پر لوگ ہمیں راجا کے نام سے جانتے ہیں، راجا کولندر کے نام سے“.
”راجا“۔ ترپاٹھی نے اس کی بات دہراتے ہوئے کہا۔ پھر وہ کہنیاں گھٹنوں پر ٹکا کر ذرا آگے ہو کر بیٹھ گیا۔
”دیکھو راجا، تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ میرے ہر سوال کا ٹھیک ٹھیک جواب دو۔ ورنہ تم جانتے ہی ہوگے کہ پولیس سے جھوٹ بولنے کا کیا انجام ہوتا ہے؟“۔
”پر صاحب ہم نے کِیا کیا ہے؟ کیوں پکڑا ہے ہمیں؟“۔
ترپاٹھی نے اب صاف صاف بات کرنے کا سوچا۔
”دیکھو راجا، ایک نیوز رپورٹر غائب ہے، وہ تمہارے ہی گاؤں سے تعلق رکھتا ہے اور پولیس کو شک ہے کہ اس کی گمشدگی کے پیچھے تمہارا ہی ہاتھ ہے۔ اب تم چپ چاپ مجھے بتادو کہ دھریندرا سنگھ کہاں ہے؟“.
راجا کولندر چپ چاپ بیٹھا ترپاٹھی کو گھورتا رہا۔ ترپاٹھی اور اس کے ساتھیوں کی دھمکیوں، گالیوں اور غصے کے جواب میں اس کے پاس صرف ایک ہی جواب تھا۔۔
خاموشی۔۔۔
ترپاٹھی نے اسے الگ بند کروادیا اور اس بار اس نے وکش راج سے سوال جواب کرنا شروع کیے۔ جب وکش راج کو تفتیشی کمرے میں لاکر ترپاٹھی کے سامنے بٹھایا گیا تو ترپاٹھی کی تیز نظروں نے اس کی گھبراہٹ کو بھانپ لیا۔ اس نے سخت لہجے میں اس سے سوال کرنا شروع کر دیے، وکش راج نے بوکھلاہٹ میں جواب میں کچھ ایسی باتیں کہہ دیں جن سے ترپاٹھی کو یقین ہوگیا کہ دھریندرا کے غائب ہونے کے پس پردہ یہ دونوں ہی ہیں۔
اس کے بعد رات کا باقی وقت وکش راج اور راجا کولندر نے پولیس کے ”ڈرائنگ روم“ میں گزارا۔
عام انسان کے لیے ڈرائنگ روم عام سا لفظ ہے، لیکن مجرموں کے لیے پولیس کے ”ڈرائنگ روم“ کا مطلب ہے خوفناک اور بے پناہ تشدد، جو بڑے بڑوں کا پتہ پانی کردیتا ہے۔
اور ہزار سخت جانی کے باوجود، راجا کولندر کی خاموشی کے قفل کو ڈرائنگ روم کی سیر نے توڑ ہی دیا۔
اس نے دھریندرا کے قتل کا اعتراف کر لیا، اس کی گاڑی سے دھریندرا کا موبائل سیٹ بھی مل گیا۔
”لیکن تم نے اس کی جان کیوں لی؟“.
ترپاٹھی کے سوال پر تھوڑی دیر وہ خاموش رہا پھر سلگتے ہوئے لہجے میں بولا۔” اس کے میری پتنی کے ساتھ ناجائز سمبندھ تھے، اسی لیے میں نے اسے مارا“.
ترپاٹھی نے نفی میں سر ہلایا۔”تمہاری بیوی ہم نے دیکھی ہے، اور اس رپورٹر کی بھی۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اور پھر دھریندرا تو عمر میں بھی تیری بیوی سے بہت چھوٹا ہے۔ اس لیے یہ باتیں سنا کر کسی اور کو بے وقوف بنانا۔ سچ سچ بتاؤ ورنہ دوبارہ لٹکادوں گا“.
لیکن وہ اپنی بات پر اڑا رہا۔
صبح ہوتے ہی پولیس نے اس کی بیوی پھولن دیوی، بیٹوں عدالت اور ضمانت، اور بیٹی آندولن کو پکڑا اور انہیں تھانے میں اس کے سامنے لے گئے۔ یہ راجا کا ویک پوائنٹ تھا، سو اسے ٹوٹنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔
”انہیں چھوڑ دو، جرم میں نے کیا ہے۔ میں سب کچھ بتادوں گا جو تم جاننا چاہتے ہو“.
احساس فتح سے سرشار ترپاٹھی نے ایک کرسی گھسیٹ کر سامنے کی اور ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھنے کے بعد ایک بار پھر اس سے ساری کہانی شروع سے سننے لگا۔
۔۔۔۔۔
رام نرنجن عرف راجا کولندر، 1962 میں اتر پردیش کے شہر الہ آباد کے ایک علاقے پریاگ راج میں پیدا ہوا۔ اس کا تعلق کول قبیلے سے تھا۔ تقسیم سے پہلے یہ قبیلہ جنگلوں میں رہنے کا عادی تھا، لیکن رفتہ رفتہ ان کے طرز زندگی میں جدت آتی گئی اور انہوں نے جنگلوں سے شہروں کا رخ کیا۔ شہروں میں وہ چھوٹے موٹے کام کر کے زندگی کی گاڑی گھسیٹنے کی کوشش میں رہتے تھے۔ ان کا شمار نچلی ذاتوں میں کیا جاتا تھا اور معاشرے میں وہ کسی خاص حیثیت کے مالک نہیں سمجھے جاتے تھے۔
ایسے ہی ایک گھر میں جنم لینے والے رام نرنجن کی زندگی بھی ایک دائرے میں چلتے چلتے گزر رہی تھی۔
لیکن اس کو اس طرح کی معمولی سی زندگی پسند نہیں تھی، وہ ایک سرکاری محکمے میں نوکری کرتا تھا مگر اس کی تنخواہ بہت معمولی تھی، جس سے وہ اپنا معیارِ زندگی تو شاید کسی حد تک بدل بھی دیتا، مگر اسے وہ طاقت نہیں ملتی جو وہ حاصل کرنا چاہتا تھا۔ بچپن سے اس نے اپنے قبائلی پسِ منظر کی وجہ سے اپنی برادری کے ساتھ جو سلوک دیکھا تھا، اس کے نزدیک اس کی وجہ یہی تھی کہ اس کا قبیلہ کمزور تھا، اس لیے طاقتوروں نے ان سب پر زندگی مشکل کر رکھی تھی۔ یہ کھلا ”انیائے“ تھا، اور وہ اس ظلم کو مٹانے کا تہیہ کیے ہوئے تھا جس کے لیے اسے طاقت چاہیے تھی لیکن۔۔
طاقتور بننے کے لیے اس کے پاس وسائل نہیں تھے۔
وہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتا تھا جو اس کو مالی طور پر کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا تھا۔
یہی سب سوچنے کے بعد اس نے اپنے سالے وکش راج کے ساتھ مل کر گاڑیاں لوٹنے کا کام شروع کر دیا۔ وہ رینٹ پر گاڑی لیتا اور پھر وہ دونوں اس کار کے ڈرائیور/مالک کو کسی ویرانے میں لے جا کر مار دیتے۔ اس طرح اس کے پاس پیسہ آنے لگا۔ اس نے رام نرنجن کی بجائے راجا کولندر کہلانا شروع کردیا، راجا کولندر کا مطلب تھا ”کولوں کا راجا“. اس نے اپنی بیوی کا نام بھی بدل دیا، گومتی دیوی کی بجائے وہ اسے پھولن دیوی کہتا تھا اور ان کے ملنے جلنے والوں میں دونوں کے یہ نام اتنے مشہور ہوگئے کہ لوگ ان کے اصل نام بھول بیٹھے۔ اس نے اپنے بچوں کا نام بھی عدالت، ضمانت اور آندولن رکھا۔ یہ تینوں نام بھی اپنے مطالب میں طاقت کو سمیٹے ہوئے تھے۔ یوں راجا اپنے آپ کو کولوں کے راجا کے روپ میں دیکھنے لگا، اسے پھولن دیوی کا ساتھ مل گیا اور عدالت، ضمانت اور آندولن اس کے اختیار میں آگئے۔ لیکن یہ سب ایک دیوانے کا خواب تھا، جسے حقیقت بنانے کے لیے راجا کولندر نے اپنی بیوی کو سیاست کے میدان میں دھکیل دیا۔ اس کی بیوی ضلعی پنچایت کے اہم ممبر تھی۔ خود راجا بھی ایم این اے کے الیکشن میں حصہ لینے کا پروگرام بنا چکا تھا، لیکن غیر متوقع طور پر اسے گرفتار کرلیا گیا۔
جس وقت اسے گرفتار کیا گیا اس وقت بھی اس کے پاس ایک کمانڈر جیپ، ایک tata sumu، اور ایک موٹر سائیکل تھی۔ دونوں جیپیں لوٹ کا مال تھیں، ان جیپوں میں سے tata sumu کے مالک اور کلینر کو اس نے مار کر ایک ویرانے میں پھینک دیا تھا اور جیپ کی نمبر پلیٹ اور کلر بدل کر اسے اپنے پاس رکھ لیا۔ جب مقررہ وقت پر اس جیپ کے مالک کی واپسی نہیں ہوئی تو اس کے رشتہ داروں نے پولیس میں رپورٹ کرنے کے ساتھ ساتھ، پریس کو بھی اپنے دونوں لڑکوں اور جیپ کی گمشدگی سے آگاہ کردیا۔ اس کانفرنس میں موجود صحافیوں میں سے ایک دھریندرا سنگھ بھی تھا۔
دھریندرا نے اس سے ملتی جلتی جیپ کو اپنے گاؤں میں دیکھا تھا، وہ اس کھوج میں لگ گیا کہ ”کہیں یہی تو وہ لوٹی ہوئی جیپ نہیں؟“۔ اپنی تمام تر ہوشیاری کے باوجود بھی دھریندرا کے ہاتھ سے احتیاط کا دامن چھوٹ گیا، راجا کو اس کے ارادوں کی بھنک پڑ گئی اور اس نے بظاہر بڑی خوش خلقی سے اسے اپنے فارم ہاؤس پر مدعو کیا۔ یہ فارم ہاوس اس کے گھر سے کافی دور تھا، اور وہاں اس نے کچھ سور پال رکھے تھے۔ لیکن وہاں پر صرف سور ہی نہیں تھے، کچھ اور بھی تھا۔۔۔۔
دھریندرا اسی کو کھوجنے کیلئے رات کے وقت وہاں پہنچا، جہاں پر راجا نے اسے بڑی عزت سے چارپائی پر بٹھا کر آگ جلائی، اور باتیں کرتے ہوئے وکش راج کو اشارہ کردیا۔ وہ بہانے سے اٹھ کر اندر گیا اور جب واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں پستول تھا۔ دھریندرا کو جب خطرے کا احساس ہوا تو بہت دیر ہوچکی تھی، جیسے ہی وہ مڑا، وکش راج نے اسے گولی مار دی۔
۔۔۔۔
ترپاٹھی نے اس کو ناگواری سے دیکھا۔ ” تم نے وہ پستول کہاں چھپایا ہے؟”۔
”وہیں ہے، فارم ہاؤس پر، اپلوں کے ڈھیر میں“.
ترپاٹھی نے فورا ہی راجا کو ساتھ لیا، پولیس کی ٹیم بنائی اور اس فارم ہاؤس کی طرف چل پڑا۔ پولیس نے جلد ہی پستول ڈھونڈ لیا، اور انہیں دھریندرا کی بائیک کی نمبر پلیٹ بھی مل گئی۔ ترپاٹھی مطمئن تھا، پولیس افسر کی حیثیت سے اس نے اپنا فرض نبھا دیا تھا۔ لیکن اگلے لمحے وہ چونک اٹھا، کیونکہ ایک پولیس والا ایک ڈائری اٹھائے آ رہا تھا۔
”سر، اس میں کچھ نام لکھے ہوئے ہیں، دھریندرا کا نام بھی شامل ہے“۔
ترپاٹھی نے ڈائری لے کر الٹ پلٹ کی، اس کے پہلے صفحے پر لکھا تھا ”راجا کی ڈائری“. اس کے ایک صفحے پر 14 نام لکھے ہوئے تھے، اور آخری دو ناموں سے پہلے دھریندرا کا نام بھی تھا۔ ان میں کچھ نام ایسے بھی تھے جو گمشدہ تھے۔ اس کا ماتھا ٹھنکا، وہ راجا کی طرف مڑا۔
”اس ڈائری میں یہ نام کیوں لکھے ہوئے ہیں تم نے؟“۔
حسبِ عادت اس بار بھی اسے خاموشی کا جواب ملا، مگر اس بار یہ وقفہ مختصر ثابت ہوا۔ اور جب راجا کی خاموشی ٹوٹی تو پولیس والے یہ جان کر دہل کر رہ گئے کہ یہ نام ان لوگوں کے ہیں جنہیں اس نے مار دیا تھا۔
ڈائری میں پہلا نام کالی پرساد شری واستو کا تھا جو اس کے ساتھ ہی کام کرتا تھا۔
راجا کولندر لوگوں کو قرضہ دے دیا کرتا تھا، اس نے شری واستو کو بھی 50,000 روپے قرضے کی مد میں دہے۔ لیکن شری واستو ایک مکار شخص تھا، راجا نے جب بھی پیسے مانگے تو وہ دینے سے انکار کرتے ہوئے کہتا۔
”نہیں دینے پیسے، جو کرنا ہے کرلو۔ لالہ کی کھوپڑی ہے ہمارے پاس، اتنا آسان نہیں ہے ہم سے پیسے لینا“.
شری واستو اونچی ذات کا تھا، اس لیے راجا خون کی گھونٹ پی کر رہ جاتا۔ لیکن جب تک؟ اس نے اسے سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا، اس نے شری واستو کے ساتھ دوستی بڑھائی اور ایک دن اسے اپنے فارم ہاؤس پر بلا کر مار دیا۔ اس کے بعد اس نے اس کا دھڑ وہیں دفن کردیا، اور اس کا سر ابلتی کڑھائی میں ڈال دیا۔
”شری واستو بہت چالاک تھا، اگر لالہ کی کھوپڑی اسے اتنا مکار بناسکتی ہے تو اس کھوپڑی کا سوپ پی کر میں بھی اس جیسا چالاک بن سکتا ہوں“.
یہ تھی اس کی سوچ، جو اس کے اپنے شکاروں کے دماغ کا سوپ پینے کے پیچھے کارفرما تھی۔۔۔!
اگلی باری تھی محمد معین کی، اس نے بھی راجا سے 25,000 کا قرضہ لیا تھا جو اس نے واپس دینے سے انکار کردیا۔ معین ہپناٹزم کا ماہر تھا، اس لیے خود کو بہت عالم فاضل قسم کا شخص سمجھتا اور اکثر راجا کے سامنے شیخی بگھارتا رہتا، اس کی ڈینگیں سن کر ایک بار پھر راجا کے اندر کا آدم خور کروٹ لے کر اٹھ بیٹھا۔ ”یہ ہپناٹزم جانتا ہے، اس کا علم اس کے دماغ کے اندر ہے۔ اور وہ تو ابال کر پیا جاسکتا ہے“. بس پھر حسبِ سابق اس نے معین سے دوستی بڑھائی، اور پھر اسے ایک ویران پُل پر اکیلے میں بلا کر مار دیا۔ معین مسلمان تھا، اس لیے اس سوچ کے تحت اسے دفن نہیں کیا کہ مرنے کے بعد دفن ہونے سے کہیں معین کی روح کی آتما کو شانتی نہ مل جائے، اس نے اس کا سر کاٹا، دھڑ کو ندی میں پھینکا اور اس کا بھیجا نکال کر ابالا اور پی گیا۔ یہ دونوں کھوپڑیاں اس کے فارم ہاؤس پر ہی دفن تھیں۔
۔۔۔۔۔
ترپاٹھی منہ کھولے ہکا بکا سا اسے دیکھ رہا تھا۔ کوئی انسان بھلا ایسا کیسے کرسکتا ہے؟ لیکن حیران ہونے کا کا وقت نہیں تھا، راجا کولندر کی نشان دہی پر وہ دونوں کھوپڑیاں برآمد کرلی گئیں۔ جبکہ بقیہ کے متعلق کوئی ثبوت نہیں ملا۔
لسٹ کے باقی افراد میں سے دو زندہ تھے، جن کو مستقبل میں اس کا شکار بننا تھا، لیکن اس سے پہلے ہی اس کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا۔ اس کا کیس بہت لمبا چلا، 30 نومبر 2012 کو عدالت نے اسے دھریندرا، شری واستو اور دو اور لوگوں کو مارنے کے جرم میں عمر قید کی سزا دی۔ راجا کولندر، اس کا سالا وکش راج، اور بعض رپورٹس کے مطابق اس کی بیوی پھولن دیوی بھی اب ساری زندگی کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہیں گے۔
سال 2000 سے پہلے وہ لوگوں کے لیے ایک عام آدمی تھا جو اپنی فیملی کے ساتھ ساتھ دوستوں اور جاننے والوں کے لیے بھی ہمیشہ بہت اچھا رہا تھا۔ اس کے بچوں کے لیے یہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔
اس کی بیٹی آندولن کا کہنا ہے ” ہمارے پاپا ایک عام انسان تھے، میں نے یوٹیوب پر دیکھا ہے کہ لوگ کہتے ہیں وہ آدمیوں کو مار کر کھا جاتا تھا، پاگل ہیں کیا وہ؟ اگر ایسا ہوتا تو ان کے بیوی بچے کیوں ہوتے؟ انہوں نے کسی کو نہیں کھایا، ہاں اگر مارا ہوگا تو بھی سامنے والے کی ہی غلطی ہوگی“.
اس کابیٹا عدالت کول کہتا ہے۔”پاپا کام سے گھر آتے تو ہمیں پڑھاتے تھے۔ کھانا کھاتے، ٹی وی دیکھتے اور سوجاتے۔ وہ تو ایک عام آدمی تھے“.
لیکن دھریندرا سنگھ کا چھوٹا بیٹا راہول سنگھ ایسا نہیں سوچتا۔ وہ سسکتے ہوئے کہتا ہے۔”ہمارے پتا کا قاتل یہی ہے، آج اگر پاپا زندہ ہوتے تو ہماری زندگی مختلف ہوتی۔ ہم پل تو گئے مگر کوئی بھی ماتا پتا کی جگہ نہیں لے سکتا، ہماری زندگی کو برباد کرنے والا راجا کولندر ہے۔
راجا کے بارے میں سائیکالوجسٹ ڈاکٹر رجت مترا کا کہنا ہے.
after studying his behavioral patterns, he could assess that the man was probably suffering from an antisocial personality disorder.
2021 میں نیٹ فلیکس پر Indian predators: Diary of a serial killer کے نام سے تین اقساط پر مشتمل ایک ڈاکومنٹری بنائی گئی جس میں راجا کولندر کے جرائم کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور اس کا انٹرویو بھی لیا گیا۔ جس میں وہ سارے کیس کو من گھڑت قرار دے کر کہتا ہے کہ اسے بڑی ذات والوں نے پھنسایا ہے، کیونکہ وہ الیکشن میں حصہ لینے جارہا تھا، اور اس کی برادری کے بڑے ووٹ بینک کی وجہ سے اس کی جیت یقینی تھی، اسی لیے انہوں نے پولیس اور جج کے ساتھ ملی بھگت کر کے اسے سزا دلادی۔
راجا کولندر اب Unnao jail میں اپنی سزا کے دن کاٹ رہا ہے، اور مزے کے بات یہ کہ وہاں اس کا رویہ بہت اچھا ہے، جس کی وجہ سے پولیس نے اسے قیدیوں، خاص طور پر دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہونے والے قیدیوں سے گھل مل کر ”اندر کی خبریں“ لانے کی کی ذمے داری بھی سونپی تھی، مگر انہیں جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ وہ انہیں ڈبل کراس کر رہا ہے۔
ختم شد
اگر آپ کو یہ کیس فائل اچھی لگی ہو تو کمنٹ کرکے اپنی پسندیدگی کا اظہار ضرور کریں۔ شکریہ۔
0 Comments