Case
1
ننھا
قاتل
تحریر:
سحر سلیم حسن
” خوشبو گم نہیں ہوئی، وہ مر گئی ہے”۔
سال 2007 کی ایک شام میں پولیس آفیسر نے جب یہ بات 8 سالہ بچے کے منہ سے سنی تو اسے اس پر بالکل بھی یقین نہیں آیا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ چھوٹا سا بچہ اس کے ساتھ کسی قسم کا مذاق کر رہا ہے یا جھوٹ بول رہا ہے۔ جیسے کہ عام طور پر بعض بچوں کی عادت ہوتی ہے۔
لیکن وہ غلط سوچ رہا تھا۔
6 سالہ خوشبو واقعی میں مر چکی تھی۔
اور اس گاؤں میں ہونے والی یہ پہلی پر اسرار موت نہیں تھی، اس سے پہلے بھی سن 2006 میں ایک ہی خاندان کی دو چھوٹی بچیاں پر اسرار طور پر مر چکی تھیں، مگر گاؤں والے نہیں جانتے تھے کہ ان اموات کی کی وجہ کیا تھی؟۔۔۔
متعلقہ:آدم خور کی ڈائری
اور آج یہ تیسری موت تھی...
بہار کے اس گاؤں مسہری میں لوگ غربت کی لکیر سے بھی نیچے کی زندگی گزارتے تھے۔
ایسے
میں کس کو پڑی تھی کہ بچوں پر مکمل توجہ دیتا؟ البتہ وہ انہیں مسہری کے لوکل اسکول
میں ضرور داخل کرا دیتے تھے تاکہ تھوڑی بہت تعلیم تو حاصل کرلیں۔ان ہی میں سے ایک
8 سالہ امرجیت سدا بھی تھا۔
وہ 1998 میں بیگو سرائے میں پیدا ہوا تھا۔ بچپن تلاش
معاش سے بے نیاز تھا اس لیے بے فکری سے دن بھر درختوں پر چڑھتا اور گاؤں کی گلیوں
میں گھومتا رہتا تھا۔ امرجیت عام بچوں سے قدرے مختلف تھا، اس کے چہرے کے تاثرات
اسے الگ اور سب سے جدا ظاہر کرتے تھے۔ وہ ایک جھگڑالو، غصہ ور اور بد تمیز بچہ
تھا۔ بچوں سے مار پیٹ اور بڑوں سے بد تمیزی اس کا وطیرہ تھا۔ مگر اس سب کے باوجود
بھی وہ ایک عام سا بچہ ہی نظر آتا تھا، لڑائی جھگڑے تو بچوں میں ہوتے ہی رہتے ہیں۔
اور اکثر بچے بدتمیزی پر بھی اتر آتے ہیں، اس میں نیا کیا تھا؟ سب ٹھیک ہی تو تھا۔
لیکن
اس بچے نے اس وقت سب کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی جب چنچن دیوی کی 6 ماہ کی بیٹی
خوشبو دن دہاڑے غائب ہو گئی۔
چنچن
دیوی بھی ان بہت سی غریب عورتوں میں سے ایک تھی جو دن بھر دیہاڑی پر محنت مزدوری
کرتی تھیں۔ کام کے دوران 6 ماہ کی خوشبو کو ساتھ رکھنا ممکن نہ تھا، اس لیے چنچن
اپنی بیٹی کو دیکھ بھال کے لیے لوکل اسکول میں چھوڑتی اور کام پر روانہ ہوجاتی۔ یہ
اس کا روز کا معمول تھا۔
لیکن
اس شام جب وہ کام سے لوٹ کر خوشبو کو لینے اسکول آئی تو یہ جان کر وہ سکتے میں رہ
گئی کہ خوشبو تو وہاں تھی ہی نہیں.چنچن نے اسکول انتظامیہ سے پوچھا تو انہوں نے لا
علمی کا اظہار کیا۔ وہاں وہ تنہا بچی نہیں تھی، علاقے کی بہت سی کام پر جانے والی
خواتین بچوں کو اسکول کے کیئر سینٹر میں چھوڑ جاتی تھیں، ان سینکڑوں بچوں میں سے
اکیلی خوشبو کے گم ہونے کا کسی نے بھی نوٹس نہیں لیا تھا۔
چنچن
دیوی کے اصرار پر انتظامیہ نے اس کے ساتھ مل کر اسکول کا کونہ کونہ چھان مارا، مگر
خوشبو کی خوشبو بھی نہ مل سکی۔
چنچن
دیوی پر قیامت گزر گئی تھی۔
آخر
اس کی 6 ماہ کی بچی کہاں جا سکتی تھی؟۔اسکول والوں کی لا علمی میں اسے کون لے
گیا؟۔
بے
چین ہو کر وہ گاؤں کی طرف بھاگی کہ شاید کہیں سے کوئی پتہ، کوئی سراغ مل جائے۔ وہ
سارے گاؤں میں ایک ایک سے دیوانوں کی طرح پوچھتی رہی، ” کیا تم نے خوشبو کو دیکھا؟
کیا کہیں خوشبو نظر آئی؟“۔ مگر سب نے نفی میں جواب دیا۔ کسی کو بھی نہیں معلوم تھا
کہ خوشبو تو وہیں پر، اسی اسکول سے کچھ دور جھاڑیوں میں موجود تھی۔
چنچن
تھک ہار کر اپنے گھر کی دہلیز پر بیٹھ گئی اور زور زور سے رونے لگی۔ اس کے بین سن
کر بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔ کسی نے پولیس کو اطلاع کرنے کا مشورہ دیا تو چنچن کے
تھکے ہارے وجود میں امید کی تازہ لہر دوڑ گئی۔ یہ سوچ کر وہ گاؤں کے چند لوگوں کو
لے کر پولیس اسٹیشن پہنچ گئی کہ شاید پولیس والے ہی اس کی خوشبو کو ڈھونڈ کر لے
آئیں۔ پولیس نے چنچن کو دلاسہ دے کر گھر بھیج دیا اور اپنی کارروائی شروع کر دی۔
پہلے
انہوں نے اسکول کے آس پاس تلاش شروع کردی۔ ایک پولیس والے کو کچھ بچے کھیلتے نظر
آئے۔ ان ہی میں سے ایک امرجیت بھی تھا۔ پولیس افسر نے اسے بلا کر پوچھا۔ ” چنچن
دیوی کی بیٹی خوشبو گم ہو گئی ہے، کیا تم نے اس کو کہیں دیکھا ہے؟
دیہات
کے بچوں میں اعتماد کسی قدر کم ہوتا ہےاور وہ پولیس کو دیکھ کر بھاگ جانا ہی پسند
کرتے ہیں، لیکن امرجیت کے چہرے پر کوئی ڈر یا خوف نہیں تھا۔ وہ کچھ دیر تک خاموشی
سے پولیس والے کو دیکھتا رہا۔ پھر اس کے ہونٹوں پر ایک پر اسرار مسکراہٹ ابھری اور
اس نے کہا۔ ” خوشبو گم نہیں ہوئی، وہ مر چکی ہے“۔
پولیس
والوں نے اس کی بات کو محض ایک گپ سمجھا، لیکن اس وقت وہ کانپ کر رہ گئے جب امرجیت
نے انہیں جھاڑیوں کے ایک جھنڈ میں موجود خوشبو کی لاش دکھائی۔۔۔ جس کا چہرہ پتھر
کی ضرب سے مسخ کردیا گیا تھا۔ لاش ملتے ہی سارے علاقے میں کھلبلی مچ گئی۔ 6 ماہ کی
بچی کے اس بے رحمانہ قتل نے سب کو لرزا کر رکھ دیا تھا۔ لاش کے بعد قاتل کی تلاش
ہوئی تو امرجیت سے پولیس والوں نے پوچھا کہ اسے خوشبو کی موت کا کیسے علم ہوا؟ تب
اس نے بڑے پر سکون لہجے میں مسکراتے ہوئے کہا۔
”
خوشبو کو میں نے ہی مارا ہے، اور اس کی لاش بھی یہاں پر میں نے ہی ڈالی تھی“۔
اور
آٹھ سال کے اس معصوم بچے کا یہ اعتراف سن کر وہاں موجود سبھی لوگ سکتے میں رہ گئے۔
مزید اس نے یہ بتایا کہ پہلے اس نے خوشبو کا گلا گھونٹا تھا لیکن وہ جو خوف دیکھنا
چاہتا تھا، وہ اسے خوشبو کی آنکھوں میں نہیں نظر آ رہا تھا، اس لیے اس نے پتھر
اٹھایا اور اس کے مسلسل وار کر کے خوشبو کا سر کچل کر رکھ دیا۔ یہ جان کر پولیس
والوں نے اسے گرفتار کر لیا۔ بھگوان پور تھانے میں بھی وہ مسکراتا ہی رہا۔
بھگوان پور پولیس اسٹیشن
انچارج
آفیسر Shatrughan Kumar نے اس سے پوچھا کہ اس نے یہ کیوں کیا؟ تب اس
نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”
صاحب بہت بھوک لگی ہے، مجھے چائے اور بسکٹ دو“۔ انچارج اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔
یہ
خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور چند گھنٹوں کے اندر اندر نہ صرف انڈیا بلکہ دنیا
بھر میں پھیل گئی اور امرجیت کم عمر سیریل کلر کے طور پر مشہور ہو گیا۔
کیونکہ
یہ امرجیت کا تیسرا شکار تھا، اس سے پہلے وہ 2006 میں اپنی چچا کی بیٹی اور اپنی
سگی بہن کو بھی قتل کر چکا تھا۔
پولیس
والوں نے جب اس کے گھر والوں سے تفتیش کی تو پتہ چلا کہ یہ دونوں جرائم اس کے گھر
والوں کے علم میں بھی تھے، مگر انہوں نے اسے خاندانی معاملہ قرار دیتے ہوئے امرجیت
کو معمولی سی مار پیٹ کرنے کے بعد بات کو دبا لیا تھا۔سال 2006 کے ایک دن میں امرجیت کی چاچی جب کام پر گئی تو اس نے اپنی
بیٹی کو امر جیت کی ماں کے سپرد کیا اور چلی گئی۔ اسے بھی کوئی کام یاد آ گیا تو وہ
بازار جانے کے لیے نکل کھڑی ہوئی۔ امر جیت گھر میں ہی موجود تھا، اس لیے ماں نے
اسے بلا کر کہا۔
”
جیتے، چھوٹی بہن کا خیال رکھنا، میں تھوڑی دیر میں آتی ہوں“۔
جیتے
نے ناگوار نظروں سے ماں کو دیکھا، لیکن کچھ کہا نہیں۔ ماں چلی گئی تو وہ لوٹ کر
اندر آیا ، بچی گہری نیند سوئی ہوئی تھی۔ اس نے اس کا کان پکڑ کر بے دردی سے
کھینچا، چھوٹی بچی جاگ گئی اور اس نے رونا شروع کر دیا۔ امر جیت کو اس کا رونا
بہت اچھا لگ رہا تھا، اس نے اسے گھونسے مارنا شروع کر دیا، جیسے جیسے وہ بچی
کی چیخ و پکار سنتا اسے عجیب سی خوشی کا احساس ہوتا۔ آخر کار اس نے اپنے دونوں
ہاتھ اس کی گردن پر رکھ دیے، اور تھوڑی دیر بعد وہ ننھی سی جان ہمیشہ کے لیے چپ ہو
گئی۔ اب اس نے بیٹھ کر غور سے اسے دیکھا۔ کچھ سوچ کر اس نے اسے اٹھایا اور گھر کے
پچھواڑے لے جا کر ایک اینٹ سے اس پر وار کرنے لگا۔ جب اس ” خونی کھیل“ سے اس
کا دل بھر گیا تو اس نے گھاس کا گٹھا اٹھا کر بچی کا بے جان وجود اس کے نیچے چھپا
دیا۔ گھر والے آئے اور اس سے پوچھا کہ وہ بچی کہاں ہے جو اس کی نگرانی میں چھوڑی
گئی تھی؟ تب اس نے ہنستے ہوئے گھاس کا گٹھا اٹھا کر لاش کی نشان دہی کر دی۔
چچا
زاد کی موت کے کچھ عرصے بعد اس کی آٹھ ماہ کی بہن نے بھی اپنے بھائی کے بے رحم
ہاتھوں میں جان کی بازی ہار دی۔ ایک دوپہر جب اس کے ماں باپ سو رہے تھے تو
اس نے اپنی بہن کو اٹھایا اور باہر لے جا کر اس کا حال بھی وہی کیا جو اس سے پہلے
شکار کے ساتھ کیا تھا۔ دونوں اموات پر امرجیت کے باپ نے اسے جانوروں کی طرح پیٹا۔
لیکن گھر کے باہر کسی کو خبر نہ ہونے دی کہ اس گھر کی چار دیواری میں ایک قاتل پل
رہا ہے۔
امرجیت
کے والدین اگر پہلے قتل کے وقت ہی اس کے جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہ کرتے تو
شاید باقی دونوں بچیاں زندہ ہوتیں۔ لیکن ان کی مجرمانہ غفلت کے باعث مزید دو قیمتی
جانیں بھی ضائع ہو گئیں۔
لیکن
امرجیت نے ایسا کیوں کیا؟ کیوں اس نے تین بے گناہ جانیں چھینیں؟
جبکہ
نہ تو اس کے خاندان میں کوئی کرمنل بیک گراؤنڈ کا حامل تھا، نہ اس کے گھر میں ٹی
وی یا ریڈیو تھا جس سے کچھ دیکھ کر وہ جرم کرنے کی طرف مائل ہوتا۔
اس
کی گرفتاری کے بعد بہت سے سائیکالوجسٹ اور دماغی امراض کے ماہرین نے اس کا معائنہ
کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ ایک “Sadist”
تھا۔
“
A person who takes pleasure in inflicting
pain, punishment or humiliation on others ”.
ایک
ایسا شخص جو دوسروں کو درد میں مبتلا کر کے خوش ہوتا تھا۔ ایک اور ڈاکٹر کے مطابق
وہ "conduct disorder“ ﴿ایسا رویہ جس میں مبتلا شخص لوگوں سے دور بھاگتا ہے اور
بے حد غصیلا، خود غرض اور بد مزاج بن جاتا ہے﴾ میں بھی
مبتلا تھا۔
عام
طور پر بالغ اور ٹین ایجرز ہی اس رویے کا شکار بنتے ہیں، لیکن اس بار ایک آٹھ سالہ
بچے میں اس کے symptoms کی موجودگی نے دماغی امراض کے ماہرین کو
تشویش میں مبتلا کر دیا تھا۔
امرجیت
پر کیس چلایا گیا مگر اپنی کم عمری اور انڈیا کے قوانین کے باعث اسے کوئی سزا نہیں
دی جا سکتی تھی، اس لیے اسے ایک child care center
میں بھیج دیا گیا، جہاں وہ اٹھارہ سال کی عمر تک رہنے کے بعد جب باہر نکلا تو اس
کے پاس ایک نئی شناخت تھی، لیکن اس کے ماضی کی پرچھائیاں ابھی بھی اس کے ساتھ
تھیں۔
امر
جیت اب کہاں ہے؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔ وہ آٹھ سالہ بچہ اب جوان ہوچکا ہے مگر کس جگہ
اور کس نام سے اپنی زندگی گزار رہا ہے؟ اس سے سبھی لا علم ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ
اب اپنا طرز عمل بدل چکا ہو، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے اندر کا sadist
ابھی بھی زندہ ہو اور اسے خون کرنے پر اکساتا ہو۔
لیکن
بہرحال وہ دنیا کے نظروں سے آج تک اوجھل ہے۔
حوالہ جات:
Wikipedia
The
Guardian
The
Times of India
Gulf
News
The
Sun
مزید ایسی تحاریر کے لیے ہماری ویب سائٹ کو فالو کرتے رہیں۔
0 Comments