Story of Raja kolandar The man eater of India part 2

 آدم خور

پارٹ ٹو: آدمخور کی ڈائری

https//www.darkcasefiles.pro


منظر اسی فارم ہاؤس کا تھا۔ کرخت چہرے والا شخص آج اسی جگہ موجود تھا، کسی گہری سوچ میں ڈوبا وہ زمین کو گھورے جارہا تھا۔ کافی دیر تک اسی کیفیت میں بیٹھے رہنے کے بعد اس نے گود میں پڑی ڈائری کھول دی۔ وہ کوئی باقاعدہ طور پر لکھی جانے والی ڈائری نہیں تھی، اس کے اکثر صفحات خالی تھے اس لیے وہ انہیں تیزی سے پلٹتا گیا۔ کئی صفحات کو اتھل پتھل کرنے کے بعد وہ ایک صفحے پر رک گیا، یہاں قطار میں ایک ساتھ کچھ نام لکھے ہوئے تھے۔ اس نے قلم نکالا اور ان کے نیچے دو اور نام لکھ دیے۔ اس کے بعد اس نے اس زمین پر ایک فاتحانہ نظر ڈالی جیسے ایک سپاہی فخر سے اپنے میڈلز کو دیکھتا ہے، پھر وہ باہر نکل آیا۔ فارم ہاؤس کو تالا لگانے کے بعد وہ اپنی بائیک پر سوار ہوگیا اور بائیک فراٹے بھرتے ہوئی ایک طرف روانہ ہو گئی۔

اس کہانی کا پہلا حصہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

۔۔۔۔۔۔

دھریندرا کو غائب ہوئے آج تیسرا دن تھا۔ نہ کوئی خط نہ فون۔۔

اس کے گھر والوں کی پریشانی کی کوئی انتہا نہ تھی اس کے بھائی، ماں، بیوی ہر کوئی ان تمام ممکنہ جگہوں پر جا کر اپنی تسلی کرچکا تھا، جہاں پر اس کے ملنے کا امکان ہو سکتا تھا، مگر وہ کہیں بھی نہیں تھا۔

متعلقہ: ننھا قاتل( آٹھ سالہ بچہ جس نے تین لڑکیاں قتل کردیں)

اب ایک ہی آپشن بچا تھا۔۔۔

یا تو کوئی اسے اغوا کر کے لے گیا تھا، یا پھر وہ کسی حادثے کا شکار ہو گیا تھا۔ اس کے گھر والوں اور آفس کولیگز نے اب مزید ادھر ادھر ہاتھ پیر مارنے کی بجائے پولیس کو انفارم کرنے کا فیصلہ کیا۔

17 دسمبر کو اس کے گھر والوں نے متعلقہ تھانے کا رخ کیا۔


تھانہ انچارج اپنے کمرے میں کسی قدر بے زاری کے عالم میں بیٹھا ہوا تھا جب ایک سپاہی نے اندر آ کر سلیوٹ کیا۔

” سر جی، کچھ لوگ ایک آدمی کے گم ہونے کی رپورٹ لکھوانے کے لیے آئے ہیں“۔

انچارج نے کسی قدر لاپرواہی سے کہا۔ ”ہاں تو لکھ دے، ایسی رپورٹیں تو روج(روز) ہی لکھائی جاتی ہیں”۔

سپاہی نے کسی قدر ہچکچاہٹ سے کہا۔”سر جی وہ۔۔۔ وہ گم ہونے والا کوئی پتر کار (رپورٹر) ہے“۔

انچارج کی سُستی ہوا ہو گئی۔ وہ سیدھا ہو کر بیٹھتے ہوئے بولا۔ ”ارے بھائی تو باہر کائے کو کھڑا کر رکھا ہے؟ جلدی بلاؤ اندر“۔

اس چھوٹی سی جگہ پر کسی بھی صحافی کی گمشدگی کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ صحافیوں، خاص طور پر نیوز رپورٹرز کو بہت اہمیت دی جاتی تھی اور یہاں پر انہیں ایک خاص اور اہم حیثیت حاصل تھی۔ لوگ ان کی عزت کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ یہ جاننے کے بعد کہ تھانے میں آنے والے ایک رپورٹر کے اہلِ خانہ ہیں، سارا عملہ اس کیس کو معمول سے زیادہ اہمیت دینے لگا تھا۔


انچارج نے رپورٹ درج کرکے ضروری باتیں پوچھیں اور تسلی دلاسہ دے کر انہیں روانہ کردیا۔ شہر میں کئی جرائم ہوتے تھے، لوگ گم بھی ہوتے تھے، کبھی ملتے تھے تو کبھی وقت کی گرد میں یوں کھو جاتے تھے کہ ان کے پیارے ان کا چہرہ دیکھنے، ان کی آواز سننے کی حسرت دل میں لیے لیے خود تو دوسری دنیا میں چلے جاتے، مگر گم ہونے والے کا کہیں کوئی پتہ نہیں ملتا تھا۔ ایسے میں اگر دھریندرا سنگھ نامی ایک صحافی غائب ہوا تھا تو کیا فرق پڑتا تھا؟ آپ بھی کہتے ہوں گے کوئی نہیں۔

لیکن۔۔۔۔ فرق پڑتا تھا، اور پڑ رہا تھا۔ صحافی برادری نے اس گمشدگی پر شدید ایکشن لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ پولیس ڈپارٹمنٹ بھی حرکت میں آچکا تھا۔ پولیس اگر اپنا فرض ایمانداری سے ادا کرے تو پاتال سے بھی مجرم کو کھینچ لاتی ہے۔ اور الہ آباد پولیس بھی اپنے سارے ذرائع کے ساتھ دھریندرا کو ڈھونڈ رہی تھی۔


18 ستمبر کو پولیس نے جبل پور کے جنگل میں ایک بے سر کا جسم ڈھونڈ لیا۔ اس کے جسم پر لباس نہیں تھا اور جسم کے نازک اعضا بھی کٹے ہوئے تھے۔

جلد ہی شناخت ہو گئی۔ دھریندرا کے گھر والوں نے پہچان کر لی کہ وہ بے سر جسم کسی اور کا نہیں۔ دھریندرا سنگھ کا ہی تھا۔


اس کے گھر والوں پر تو قیامت ٹوٹ ہی پڑی تھی، لیکن آس پاس کے لوگوں میں بھی خوف و دہشت کی لہر دوڑ گئی تھی۔ پولیس والے بھی بوکھلاہٹ میں مبتلا تھے، آخر اس قدر بے رحمانہ طریقہ اپنانے والا killer کون تھا؟ پولیس پر شدید دباؤ تھا کہ killer کو ڈھونڈے۔ مگر کہیں پر کوئی سرا ہاتھ نہیں آرہا تھا۔

کیس انچارج افسر شری ناراین ترپاٹھی نے ہر اس شخص سے پوچھ گچھ کی جس کے ساتھ دھریندرا کا کوئی تعلق یا جان پہچان تھی۔

www.darkcasefiles.pro


 اس کے کولیگز کے مطابق وہ اپنے گاؤں جانے کا کہہ کر گیا تھا، مگر وہاں نہیں گیا۔ کسی کو علم نہیں تھا کہ اس کے بعد وہ کہاں اور کیوں گیا تھا؟۔۔ جبکہ اس کے پاس موجود موبائل فون بھی بند جارہا تھا جو اس نے چند دن پہلے ہی خریدا تھا۔

ترپاٹھی نے آخر کار دھریندرا کی کالز کا ریکارڈ نکلوانے کا فیصلہ کیا، شاید اسی سے کوئی سرا ہاتھ آجائے، اور اس کی کوشش رائیگاں نہیں گئی۔

دھریندرا کے کال ریکارڈز میں آخری نمبر ایک لینڈ لائن ٹیلی فون کا تھا، جس سے اس کی قریبا پانچ منٹ تک بات ہوئی تھی۔ یہ نمبر کسی پھولن دیوی کے نام پر رجسٹرڈ تھا جو نینی گاؤں کی رہنے والی تھی۔

ترپاٹھی نے دھریندرا کے بڑے بھائی وریندر سنگھ سے پوچھا۔ ”پھولن دیوی نام کی کسی عورت کو جانتے ہو؟“.

https://www.darkcasefiles.pro/?m=0




وریندر اس کا نام سن کر چونکا۔ ”مہاراج وہ تو ہمارے گاؤں کی ہی رہنے والی ہے“.

”تمہارے بھائی کے نمبر پر آخری کال اسی کے نمبر سے کی گئی تھی، شاید وہ کچھ بتا سکتی ہے اس بارے میں“.

وریندر کسی اور ہی خیال میں گم تھا۔ اس نے اچانک ہی سر اٹھا کر ترپاٹھی کو دیکھا۔ ”مہاراج، ہمارا وچار کہتا ہے کہ آپ ٹھیک جگہ پر پہنچے ہیں“.

ترپاٹھی کو اس کی بات سمجھ نہیں آئی۔”کیا مطلب؟“۔وریندر نے قدرے آگے جھک کر رازداری سے کہا۔

”مہاراج، ہمارے پاس ٹھیکے پر کئی بیگھے زمین ہے، پھر جانوروں کا بیوپار بھی کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے مالی حالات کبھی بھی کچھ زیادہ اچھے نہیں رہے۔ لیکن جس عورت کا نام آپ نے لیا ہے، اس کے گھر والے کی معمولی سی نوکری ہے اور کوئی زمین جائیداد بھی نہیں، اس کے باوجود وہ بڑے ٹھاٹھ باٹ سے رہتے ہیں۔ تو اس دولت مندی کے پیچھے کوئی تو راز ہوگا نا مہاراج؟“۔

ترپاٹھی کو اس کی بات معقول لگی۔ بہرحال اس نے چیک کرنا ہی تھا، گاؤں کے باہر جیپ روک کر پہلے اس نے وریندر کو بھیجا کہ جاکر پھولن دیوی کے گھر پتہ کرے کہ آیا اس کا بھائی وہاں گیا تھا یا نہیں؟ اور ان لوگوں کا اس بارے میں کیا کہنا ہے؟.

تھوڑی ہی دیر میں وریندر سنگھ واپس آگیا، اس نے بتایا کہ پھولن دیوی کا کہنا ہے کہ دھریندرا وہاں نہیں آیا، اور نہ ہی اس کی دھریندرا سے کوئی بات ہوئی۔

اب ترپاٹھی نے پولیس والوں کے روایتی سخت انداز میں پھولن دیوی سے پوچھ گچھ کی، تب اس نے کہا کہ اس نے تو دھریندرا کو کال نہیں کی تھی، لیکن ہوسکتا ہے کہ اس کے بھائی یا شوہر نے کی ہو۔ کیونکہ وہ بھی اکثر یہی فون استعمال کرتے رہتے ہیں۔

ترپاٹھی کی نظر میں اب یہ سارا گھرانہ مشکوک تھا، اس نے ترنت وہاں سے جاکر پھولن دیوی کے بھائی اور شوہر کی تلاش شروع کردی اور انہیں اپنے ساتھ تھانے لے آیا۔ پھولن دیوی کے بھائی کا نام وکش راج تھا، اس کو الگ بٹھا کر ترپاٹھی نے پہلے س کے شوہر سے پوچھ گچھ کرنے کا فیصلہ کیا۔ تفتیشی کمرے میں اسے ایک کرسی پر بٹھا کر ترپاٹھی اس کے سامنے بیٹھ گیا اور غور سے اسے دیکھنے لگا۔ اس کی عمر تیس سے چالیس کے درمیان ہوگی، گہرا سانولا رنگ، سرد اور اندر کو دھنسی آنکھیں، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں۔ وہ ایک دبلا پتلا سا شخص تھا جس کے چہرے کے تاثرات کسی قدر کرخت اور عجیب سے تھے۔

”کیا نام ہے تمہارا؟“۔

https://www.darkcasefiles.pro/?m=0


میرا نام رام نرنجن ہے مہاراج، پر لوگ مجھے راجا کے نام سے جانتے ہیں“.


(جاری ہے)

Post a Comment

0 Comments