Raja kolandar:The man eater of India
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
14 دسمبر
بیری گاؤں
اتر پردیش
یہ منظر تھا اتر پردیش کے گاؤں بیری کے ایک گھر کا۔
رات یہاں بڑی سستی سے آگے سرک رہی تھی۔
اس چھوٹے سے گھر میں موجود وہ عورت پریشان سی دروازے کی چوکھٹ پر نظریں جمائے بیٹھی تھی، رات کے دو بج گئے تھے اور وہ ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔
یہ گھرانہ بہت غریب تھا، اس گھر کا ایک اہم فرد دھریندرا سنگھ چار بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا، بچپن سے ہی اس نے گھر میں غربت دیکھی تھی اور اس لیے اس نے اپنے گھر کے حالات کو بدلنے کا عزم کیا۔
لیکن یہ تب ہی ہو سکتا تھا جب وہ اندھا دھند محنت کرتا اور اس نے کی۔
گریجویشن کے بعد اس کو ایک اخبار میں نیوز رپورٹر کی جاب مل گئی تو وہ بڑی لگن اور محنت سے کام کرنے لگا۔ حسرتوں اور محرومیوں سے بھرا جو بچپن اس نے گزارا تھا، وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کے بچے بھی ایسی زندگی گزاریں۔ اسلیے وہ دن اور رات کا فرق بھلائے جی جان سے اپنا کام کرتا تھا۔
کام میں مگن ہونے کی وجہ سے وہ اکثر رات کو دیر سے گھر آتا تھا، کبھی کبھی تو دو دو دن بھی غائب رہتا۔ مگر ایسے میں وہ ایک آدھ فون کال کے ذریعے اپنی خیریت بتاتا رہتا تھا۔ لیکن آج تو صبح کا گیا تھا اور اب رات کے دو بج رہے تھے، مگر نہ کوئی کال نہ خبر۔۔۔ اس کی ماں پریشان ہو رہی تھی۔
نہ جانے کیا وجہ تھی کہ آج بار بار وہ بے چینی سے کروٹیں بدل رہی تھی، دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔
وہم اور وسوسے بار بار پریشان کرتے اور اسے اپنے بیٹے کا خیال آتا تھا، جس نے ان سب کو تو سہولت بھری زندگی دے دی مگر خود جانے کہاں مارا مارا پھرتا تھا؟
وہ بستر سے نکل آئی، سردی سے بوڑھی ہڈیاں ٹھٹھرنے لگیں تو اس نے وہیں سے بہو کو آواز دے کر بلا لیا۔
” کیا بات ہے ماں جی؟“۔
”ارے ہم پوچھتے ہیں آخر تمہارا شوہر کہاں گیا ہے؟ کچھ تو بتایا ہوگا اس نے “۔
” ماں جی مجھے پتا ہوتا تو آپ کو نہ بتادیتی؟ کچھ بتا کر نہیں گئے ہیں۔ میں تو خود پریشان ہوں۔ اس سے پہلے تو ایسا کبھی نہ کیا انہوں نے“۔
بوڑھی ماں کا منہ لٹک گیا۔ یعنی بہو بیگم بھی انجان تھی۔
” ماں جی، آپ سوجائیں۔ وہ اپنے کام میں لگے ہوں گے کہیں، آجائیں گے تھوڑی دیر تک۔ ورنہ صبح آجائیں گے۔ ٹھنڈ بہت ہے کہیں آپ بیمار نہ پڑجائیں “۔
بہو نے ساس کو سہارا دے کر اس کے بستر پر لٹا دیا اور دروازہ بند کر کے اپنے بچوں کے پاس چلی گئی۔
لیکن وہ دونوں بے خبر تھیں کہ دھریندرا کے ساتھ اس وقت کیا ہو رہا تھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔
رات ڈھلی اور سورج نے اپنی تیز کرنوں سے ٹھٹھرتی دھرتی کو حرارت بخشی تو دھریندرا کی بے چین ماں اٹھ بیٹھی۔ اسے رات میں ایک پل کو بھی قرار نہیں ملا تھا، بار بار کچھ غلط ہونے کا احساس ہوتا تھا لیکن، وہ مختلف بہانوں سے خود کو بہلا لیتی۔ سب کو ناشتہ دینے کے بعد جب بہو فارغ ہوئی تو ایک بار پھر ساس نے اسے بلا لیا۔
”اے بہو، تیرا شوہر رات بھر نہیں آیا، ارے کسی کو بھیج کر پتہ کراؤ۔ آخر کہاں گیا ہے وہ؟ ہمارا تو دل جانے کیوں بیٹھا جا رہا ہے“۔
اس کی بہو خود بھی پریشان تھی، چند لمحے تک سوچنے کے بعد اس نے فون کا ریسیور اٹھایا اور کہیں کال کرنے لگی۔
تھوڑی دیر تک گھنٹی بجنے کے بعد فون اٹھایا گیا۔
” ہیلو جی، آج نیوز آفس“۔
بہو نے پریشانی سے کہا۔ ” بھیا جی، دھریندرا کی پتنی بول رہی ہوں۔ کیا ان سے بات ہو سکتی ہے؟ “۔
”میڈم جی وہ تو کل آفس سے جلدی چلے گئے تھے، آج تو آئے ہی نہیں“۔
دوسری طرف کا جواب سن کر اس کی بے چینی بڑھ گئی۔
” کیا مطلب؟ وہ آفس میں بھی نہیں آئے گھر بھی نہیں ہیں۔ پھر آخر گئے کہاں؟“۔
دوسری طرف موجود شخص تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوا، پھر اس کی آواز سنائی دی۔
” دھیرج رکھیے میڈم جی، کہیں رپورٹنگ کے لیے نکلے ہوں گے۔ آجائیں گے تھوڑی دیر تک“۔
چند رسمی باتوں کے بعد فون بند کر دیا گیا۔ بوڑھی ماں نے پر امید نظروں سے بہو کو دیکھا۔مگر اس کے چہرے پر پھیلی مایوسی دیکھ کر مرجھا گئی۔
دن تیزی سے گزر گیا، مگر دھریندرا کی کوئی خبر نہ آئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
14 دسمبر 2000
نینی گاؤں
اتر پردیش
ایک بار پھر گزشتہ رات میں جھانکتے ہیں۔
رات دھیرے دھیرے اپنا سفر طے کر رہی تھی۔
ہر طرف گہرے اندھیرے اور خاموشی کا راج تھا، ایسے میں دور ایک جگہ کچھ روشنیاں سی چمکتی دکھائی دے رہی تھیں۔
دھیرے دھیرے منظر واضح ہوا تو ایک چھوٹا فارم ہاؤس نظر آتا ہے، خاموش، ویران اور ایک دم چپ۔۔
وہاں پر ٹمٹماتی روشنی بتارہی تھی کہ وہ فارم ہاؤس خالی نہیں ہے، مگر پھر بھی اس کی عمارت پر ایک عجیب سی وحشت برستی ہوئی نظر آتی تھی۔
آس پاس کہیں جھینگروں کی آوازیں ابھرتی سنائی دے رہی تھیں، یا پھر ان جلتی ہوئی لکڑیوں کی جو فارم ہاؤس کے سامنے کے کھلے حصے میں الاؤ کی صورت جل رہی تھیں۔ ذرا قریب جاؤ تو الاؤ کی زرد روشنی میں دو سائے دکھائی دیتے ہیں۔ زمین پر بیٹھا ہوا شخص درمیانی عمر اور سانولے رنگ کا تھا۔ اس کے چہرے کے نقوش میں ایک عجیب سی سختی تھی۔ وہ اینٹوں کے چولہے پر ہانڈی رکھے ہوئے آگ پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔ اس کے قریب ہی ایک نوجوان کھڑا تھا، جس کی عمر 28 سے 30 کے درمیان ہوگی، چھوٹی چھوٹی مونچھیں، پر کشش نقوش اور بڑی بڑی آنکھیں، جن میں اس وقت غصہ اور پریشانی چھلکتی دکھائی دے رہی تھی۔
ماحول میں تناؤ تھا، شاید کچھ دیر پہلے ان دونوں کی آپس میں بحث ہوئی تھی۔ نوجوان برہمی سے کہہ رہا تھا۔
” تم کیا سمجھتے ہو؟ اتنی آسانی سے بچ جاؤگے؟ تم نے بہت سے لوگوں کو دھوکا دیا ہے۔ بلکہ تمہارے جرائم تو اس سے کہیں زیادہ ہیں“۔
الاؤ کے پاس بیٹھا ہوا شخص عجیب سے انداز میں مسکرایا، نوجوان کو اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سردی کی تیز لہر دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔
آگ بھڑک چکی تھی، وہ شخص اب ہاتھ جھاڑتے ہوئے دلچسپ نظروں سے آگ کو دیکھ رہا تھا، سامنے کھڑے نوجوان کو اپنا حلق خشک ہوتا محسوس ہوا۔ پہلی بار اسے ڈر لگ رہا تھا۔ اس شخص کی گہری خاموشی سے، اس بھڑکتی آگ سے اسے ڈر لگ رہا تھا۔ وہ اس وقت کو کوسنے لگا جب وہ اپنا فرض نبھانے کے جنون میں یہاں آنے کے لیے راضی ہو گیا تھا۔
یہ جاننے کے باوجود کہ وہ۔۔۔۔ وہ ایک شکاری کی شکار گاہ ہے۔
اور یہاں آنے والوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟
” اس سے پہلے کہ میں بھی اس کا شکار بن جاؤں، مجھے یہاں سے جان بچا کر نکل لینا چاہیے۔ اس کی اصلیت بھی تبھی سامنے آئے گی جب میں زندہ رہوں گا، اس نے مجھے ٹریپ کیا ہے، کسی بھی طرح مجھے یہاں سے نکل بھاگنا چاہیے ورنہ۔۔۔ “۔
اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا کہ یہاں سے نکل بھاگنا ہے۔
لیکن۔۔۔۔
بہت دیر ہو چکی تھی۔
اس نے پیچھے کوئی آواز سنی تو وہ فورا پلٹنے لگا۔
لیکن اچانک ہی اس کے سر پر قیامت ٹوٹ پڑی، کسی نے بڑے زور سے اس کے سر پر ضرب لگائی تھی۔
وہ کراہ کر سر تھامے ہوئے نیچے گرا، اندھیرے اجالے کے بیچ ڈولتی اس کی آنکھوں نے سامنے بیٹھے شخص کو اٹھتے اور اپنے قریب بیٹھتے دیکھا۔ اس نے اٹھنے کی کوشش مگر چوٹ بہت شدید تھی، وہ اٹھ ہی نہیں پایا۔
دوسرا شخص اس کی بے بسی دیکھ کر مسکرایا۔ پھر آہستہ سے اس کے اوپر جھک کر بولا۔
” بہت عقلمند ہے تو دوست بہت عقلمند۔ پر افسوس، تیرا دماغ اب تیرے کام کا نہیں رہا۔ لیکن تو دکھی مت ہو، یہ میرے کام آ سکتا ہے“۔
نوجوان کو چاقو کی چمکتی ہوئی دھار اپنی گردن کے قریب ہوتی نظر آئی اور پھر ۔۔۔
ہر طرف موت کا سناٹا چھاگیا۔
تھوڑی دیر بعد اس کا بھیجا اس شخص کے ہاتھ میں تھا، جسے اس نے ابلتی ہوئی کڑھائی میں ڈال دیا، اس کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ ابھری اور اس نے بلند آواز میں کہا۔
” راجا کی عدالت میں تیرا سواگت ہے، راجا نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے“۔
اس کی وحشت بھری ہنسی کی آواز سارے فارم ہاؤس میں گونج کر رہ گئی۔
(جاری ہے)
اس کیس کا دوسرا حصہ شائع ہوچکا ہے، پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
0 Comments